کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 216
معلوم ہوا یہ کہنا کہ ’تمام تصوراتِ خیر مساوی ہیں ‘ غیر جانبداری کا رویہ نہیں بلکہ بذاتِ خود خیر کا ایک مستقل مابعد الطبیعیاتی تصور ہے کہ ’اصل خیر تمام تصوراتِ خیر کا مساوی ہونا ہے‘، اور ہیومن رائٹس پر مبنی جمہوری دستوری ریاست لازماً اسی تصور خیر کے تحفظ اور فروغ کی پابند ہوتی ہے۔[1]
مساوی خیر کے اس تصور پر ایمان لانے کے بعد اسلام کے ’الحق ‘ ہونے کا دعویٰ ایک مضحکہ خیز دعوی بن کر رہ جاتا ہے۔ ہیومن رائٹس پر ایمان لانے کا تقاضا یہ مان لینا ہے کہ اسلام ہی واحد حق نہیں ہے بلکہ تمام مذاہب اور نظریہ ہائے زندگی بھی اتنے ہی حق پر مبنی ہیں جتنا اسلام، لہٰذا مسلمانوں کو اسلام کی دو سرے مذاہب اور نظام ہائے زندگی پر برتری کے دعوے سے دستبردار ہو جانا چاہئے اور خصوصاً اقامت ِدین کی کوششیں ترک کردینی چاہئیں کیونکہ اسی مذہبی برتری کی سوچ کے نتیجے میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ملتا ہے ۔[2]
ہیومن رائٹس پر معاشرتی تشکیل تب ہی ممکن ہے جب افراد رواداری کے مغربی فلسفے پر