کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 212
زنابالرضا اور اَغلام بازی وغیر ہ کو قانونی جواز عطا کر دیا گیا ہے۔ ایک دستوری جمہوری ریاست میں افراد کے پاس ہمیشہ یہ حق محفوظ ہوتا ہے کہ وہ ارادۂ خداوندی کو پس پشت ڈال کر ہیومن رائٹس کی آڑ میں عملِ لواطت کا جواز حاصل کرلیں ۔[1] اس مثال سے واضح ہو جانا چاہئے کہ ’حقوق العباد ‘ کا جواز اور اس کی ترتیب تو ارادہ خداوندی سے طے ہوتی ہے یعنی ایک انسان (عبد) کو کسی عمل کا حق ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کتاب و سنت سے ہوتا ہے، اس کے مقابلے میں ہیومن رائٹس کا جواز انسان کی خود مختاریت کے دعوے سے نکلتا ہے۔ چنانچہ ہر دو حقوق میں اہم فرق سرچشمہ اور مصدر کا ہے۔اسلامی نقطہ نگاہ سے ’حق زندگی ‘ فرد کا کوئی ایسا حق نہیں جس کا جواز ماورائے اسلام کسی فطری قانون سے نکلتا ہو بلکہ اس کا ماخذ کتاب و سنت کی نصوص کے سوا اور کچھ نہیں ۔ چونکہ اسلامی نقطہ نگاہ سے فرد اپنی زندگی کا مالک نہیں ، بلکہ یہ اس کے ربّ کی عنایت ہے، اسی لئے فرد اپنی زندگی کو جیسے وہ چاہے، ترتیب دینے کا حق بھی نہیں رکھتا۔ چنانچہ نہ تو ہم یہ مانتے ہیں کہ انسان قائم بالذات ہے (کہ وہ اصلاً عبد ہے) اور نہ ہی اس کے کسی ایسے ماورائے اسلام حق کو مانتے ہیں جس کا جواز ارادۂ خداوندی سے باہر ہو اور جس کے مطابق اسے اظہارِ ذات اور اپنی خواہشات کی ترجیحات طے کرنے اور اُنہیں حاصل کرنے کا اخلاقی اور قانونی حق حاصل ہو، بلکہ اس کا حق بس اتنا ہی ہے جو اس کے خالق نے اسے اپنے نبی کے ذریعے بتادیا اس کے علاوہ وہ جو بھی فعل سر انجام دے گا، نافرمانی اورظلم کے زمرے میں شمار ہوگا اور جسے ختم کردینا ہی ’عدل‘ کا تقاضا ہے۔ انسان کا کوئی ایسا ذاتی حق ہے ہی نہیں کہ جس کا جواز از خود اس کی اپنی ذات ہو چے جائیکہ وہ حق ناقابل تنسیخ بھی ہو۔ ہیومن رائٹس کی بالا دستی ماننے کا مطلب ہی انسان کے ’حق‘ کو ’خیر‘ پر فوقیت دینا اور اس بات کا اقرا ر کرنا ہے کہ انسان اپنا حاکم خود ہے نیز ’خیر و شر‘ کامعیار خواہشاتِ انسانی ہیں نہ کہ ارادۂ خداوندی۔ یاد رکھنا چاہئے کہ حقوق و فرائض کی تمام تر تفصیلات کسی مخصوص مقصد کے حصول کا ذریعہ ہواکرتی ہیں اور مقصد یا تصورِ خیر بدل جانے سے حقوق کی تفصیلات بھی بدل جایا کرتی ہیں ۔ شارع کا اپنے بندوں کو حقوق عطا کرنے کا مقصد ’مقاصد الشریعہ ‘ کے حصول کو ممکن بناکر آخرکار