کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 209
گئی تھی جن کے مطابق آزادی کا مفہوم یہ ہے کہ خیر و شر کی تعیین ہر فرد کا حق ہے، نیز افراد کے اختیار کردہ تمام تصوراتِ خیر مساوی معاشرتی اَقداری حیثیت کے حامل ہیں ۔ ہیومن رائٹس آزادی کے اس مجرد تصور کا قانونی اظہار ہیں جو آزادی اور مساوات کے اُصولوں پر ریاستی اقتدار کی تشکیل کو ممکن بناتے ہیں ۔ اس فلسفے کے مطابق:
٭ ہر ہیومن کو چند ایسے حتمی و آفاقی (absolute) حقوق حاصل ہوتے ہیں جو ہر قسم کی مابعدالطبعیات اور تصورِ خیر سے ماقبل اور ماورا ہیں اور جو اپنا جواز از خود رکھتے ہیں کہ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہیں ۔
٭ چونکہ یہ حقوق ہر قسم کے تصورِ خیر سے ماورا ہیں لہٰذا انہی کی بنیاد پر دیگر تمام تصوراتِ خیر اور معاشروں کو جانچا جانا چاہئے۔
٭ اور ان حقوق کو ہیومن رائٹس سے ماورا کسی دوسرے قانون ، روایت یا مذہب وغیرہ کے نام پر کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا، یعنی یہ حقوق ناقا بل ردّ(unchallengeable) حقوق ہیں ۔ ان حقوق میں سر فہرست حقوق تین ہیں :
(۱) زندگی کا حق، یعنی یہ تصور کہ انسان اپنے بدن اور زندگی کا مالک اور خود مختار ہے۔
(۲) اظہارِ آزادیٔ ضمیر کا حق، یعنی یہ تصور کہ فرد اظہارِ ذات کے تمام طریقوں کا مکلف ہے، دوسرے لفظوں میں اسے اپنی مرضی کے مطابق خواہشات پورا کرنے کا حق حاصل ہے۔
(۳) ملکیت کا حق، یعنی یہ تصور کہ فرد اپنی ملکیت کو سرمایہ دارانہ ملکیت (کارپوریشن) میں ضم کردینے کا مکلف ہے۔
یہ ہیومن رائٹس درحقیقت وہ قانونی ڈھانچہ فراہم کرتے ہیں جو :
٭ ایک طرف ہر فرد کے اس حق کو ممکن بناتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ آزادی حاصل کرسکے (یعنی اظہارِ ذات کے زیادہ سے زیادہ طریقوں کو اختیار کرسکے) یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے کی عین ویسی ہی آزادی میں رکاوٹ نہ بنے، اور
٭ دوسری طرف ہر فرد کے اس مساوی حق کو ممکن بناتا ہے کہ وہ دوسروں کو اپنی آزادی اس طرح استعمال کرنے پر مجبور کرسکے کہ جس سے وہ دوسرا شخص اس فرد کی آزادی میں