کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 205
وہ اسلامی بنکوں کو ناکام نہیں ہونے دیتے بلکہ اُنہیں کامیاب بناتے ہیں تاکہ مسلمانوں کا بچھا کھچا سرمایہ بھی اس طریقے سے ان کے پاس پہنچتا رہے۔ یہ ہے حقیقت ’اسلامی‘ بنکوں کی اور ان کی کامیابی کی!! ………٭……… قارئین کرام! ہم نے موجودہ ’اسلامی بنکنگ‘ کی حقیقت اور شرعی حیثیت کو واضح کرنے کے لئے جو پانچ مقدمات قائم کئے تھے، ہم نے سطورِ بالا میں ’الحمد للہ‘ اُنہیں ثابت کر دیا ہے یعنی یہ کہ: اوّلاً:مغربی تہذیب جن بنیادوں پر کھڑی ہے یعنی ہیومنزم اور سیکولرزم، وہ خلافِ اسلام ہیں ۔ ثانیاً:ان ملحدانہ فکری بنیادوں پر تشکیل پانے والا مغرب کا سرمایہ دارانہ معاشی نظام بھی خلافِ اسلام ہے۔ ثالثاً:مغرب کے ملحدانہ سرمایہ دارانہ نظام کے کسی ایک جزو میں اسلام کا پیوند لگا کر اسے اسلامی نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ یہ دو متضاد پیراڈائم سے تعلق رکھتے ہیں ۔ رابعاً:یہ کہ مغرب کے ملحدانہ سرمایہ دارانہ نظام کے کسی ایک جزو میں تسمیات کی تبدیلی یا معمولی، غیر مؤثر، برائے نام اورسطحی تبدیلی سے اسے ’اسلامی‘ بنانے کا عمل اجتہاد نہیں تجدد ہے اور احداث فی الدین اور بدعت ہونے کی وجہ سے قابل ردّ ہے۔ خامساً:یہ نظام اس لئے کامیاب جا رہا ہے کہ یہودی اور اہل مغرب اپنے مالی مفاد کے لئے اسے کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اس وضاحت کے بعد اس ’اسلامی بنکنگ‘ کی شرعی حیثیت واضح ہو جاتی ہے کہ یہ محض کفر کی ملمع کاری کر کے اسے مطابق اسلام ثابت کرنے کی مصنوعی اور بھونڈی کوشش ہے اور یہ آبِ حیات نہیں ، محض سراب ہے۔ پس چہ باید کرد ممکن ہے کسی قاری کے ذہن میں یہ سوال اب بھی باقی ہو کہ اگر موجودہ کمرشل سودی بنکوں کا نظام غیر اسلامی ہے تو اسے اسلامی کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسے