کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 204
میں پڑا تھا اور ساری دنیا جانتی ہے کہ مغرب کا بنکنگ کا نظام یہودیوں کے ہاتھ میں ہے۔ یوں مسلمانوں کے سرمایہ کا بڑا حصہ تو پہلے سے یہودیوں کے قبضے میں تھا اور وہ اسے حسب ِمنشا اور حسب ِپلاننگ اپنے مخصوص مقاصد (جلب ِاقتدار، افزائش اثر و رسوخ اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور جنگ) کے لئے استعمال کر رہے تھے۔ اس سے بڑھ کر مسلمانوں کی بے حمیتی اور بے عقلی کیا ہو سکتی ہے؟ لیکن مسلمانوں کے متوسط طبقے کے افراد کی بچتیں ان کی پہنچ سے باہر تھیں ، کیونکہ وہ یہودیوں کے قائم کردہ کمرشل بنکوں کو سودی کہہ کر رد کر دیتے تھے اور اپنی بچتیں گھر میں رکھتے تھے یا اس سے معمولی تجارت کرتے تھے لیکن سودی بنکنگ میں ملوث نہیں ہوتے تھے۔ دنیا کے دیگر حصوں میں تو عوام کی بچتیں ان کے بنکوں میں آ ہی رہی تھیں ۔ قربان جائیے، صہیونیوں کی اس فطانت پر کہ ان کے وضع کردہ بنکنگ کے نظام کے ذریعے ساری دنیا کے عوام کی بچتیں اور سرمایہ ان کی جیب میں چلا آتا ہے، جسے وہ حسب ِمنشا استعمال کرتے ہیں ۔ لہٰذا صیہونی منصوبہ سازوں نے نام نہاد اسلامی بنکوں کا ڈول ڈالا تاکہ مسلمانوں کا یہ اربوں کھربوں کا سرمایہ بنکوں میں آ جائے اور بالفظ دیگران کے پاس آ جائے کیونکہ دنیا کا سارا بنکنگ نظام (بشمول ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف) تو ان کا اپنا وضع کردہ ہے اور ان کے کنٹرول میں ہے۔ چنانچہ ان کی یہ حکمت ِعملی کامیاب رہی اور سادہ لوح (یا مغرب سے مرعوب اور لالچی) مسلمان دانشور، ماہرین معیشت، سرمایہ کار و بنکار اس جال میں پھنس گئے اور صہیونیوں کی منصوبہ بندی کا شکار ہو گئے۔
چنانچہ آج کل اس ’اسلامی بنکاری‘ کے ذریعے متوسط طبقے کے مسلمانوں کا وہ سرمایہ بھی کافی حد تک گردش میں آ گیا ہے جو پہلے بنکوں کی گرفت سے باہر تھا۔ مطلب یہ کہ ان نام نہاد ’اسلامی‘ بنکوں کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ مغرب کا بنکوں کا نظام اور اس کے پیچھے بیٹھا یہودی ساہوکار یہ چاہتا ہے کہ یہ نظام کامیاب ہو اور مسلمانوں کے متوسط طبقے کی بچتوں اور کاروبار کا سارا سرمایہ ان کی تجوری میں آتا رہے جو کہ اب آنا شروع ہو گیا ہے۔ لہٰذا یہ نام نہاد اسلامی بنک کامیاب جا رہے ہیں ۔ اگر یہ بنک سچ مچ اسلامی ہوتے اور مغرب کے سودی معاشی نظام کے لئے چیلنج ہوتے تو مغرب اُنہیں دنوں میں فیل کر دیتا اور ان کا سارا کاروبار ٹھپ ہو جاتا، لیکن چونکہ اس میں مغرب کے بنکنگ نظام کا اور ان کے پیچھے بیٹھے یہودیوں کا فائدہ ہے لہٰذا