کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 203
مثل ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ (( من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رَدّ)) [1] (جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی بات نکالی،جو اس میں سے نہ ہو، وہ ناقابل قبول ہے) اور یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا فرمان ہے کہ (( کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة)) (دین میں ہر نیا اضافہ بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے) اور(( کل ضلالة في النار)) [2] (اور ہر گمراہی کا نتیجہ دوزخ ہے) لہٰذاوہ لوگ جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں وہ اِحداث فی الدین اور بدعت سے پرہیز کرتے ہیں اور تجدد کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔
5.’اسلامی بنکنگ‘ کا نظام کیوں کامیاب ہے؟
ممکن ہے بعض لوگوں کے ذہن میں یہ سوال اُبھرے کہ اگر ’اسلامی بنکنگ‘ غیر اسلامی اور غلط ہے اورمغرب کے سرمایہ دارانہ نظام اور اسلامی نظام کا یہ ملاپ انمل اور بے جوڑ ہے تو پھر یہ تجربہ کامیاب کیوں جا رہا ہے؟ فلاپ کیوں نہیں ہو گیا؟
اس حوالے سے یہ ذہن میں رہے کہ فکری لحاظ سے مغرب سے مرعوب، اسلام اور مغرب میں تلفیق و مصالحت کے علمبردار بعض مسلم معاشی ماہرین نے جب موجوہ بنکنگ کے نظام کے اسلامی نظام ہونے کا فتویٰ دے دیا تو اس کا عملی آغاز سعودی عرب کے حکمران خاندان کے ایک فرد نے کیا۔ یہ تجربہ کامیاب رہا اور اب دھڑا دھڑ ’اسلامی بنک‘ کھل رہے ہیں اور کامیاب کاروبار کر رہے ہیں ۔
ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ بنک سچ مچ اسلامی ہوتے اور مغرب کے سودی اور سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج کرنے والے ہوتے یا اس کا بہتر متبادل بن سکنے کی صلاحیت کے حامل ہوتے تو طاقتور مغرب ان کو ایک لمحہ نہ برداشت کرتا اور ان کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتا۔ اس کے برعکس وہ ان کی حوصلہ افزائی اور پشت پناہی کرتا ہے۔ ہم جب ۱۹۹۰ء میں امریکہ گئے تو واشنگٹن میں یہ سن کر حیران ہوئے تھے کہ ورلڈ بنک میں ’اسلامی بنکنگ‘ پر ایک تحقیقی سیل کام کر رہا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ امیر مسلمان ملکوں اور حکمرانوں کا سارا سرمایہ مغرب (امریکہ و یورپ) کے بنکوں