کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 202
جیسے نظریات (جن کا خلافِ اسلام ہونا اوپر بدلائل ثابت کیا جا چکا ہے) پر مبنی سودی اور ملحدانہ معاشی نظام کے پورے ڈھانچے کو علی حالہٖ باقی رکھتے ہوئے اس کے ایک اہم جزو (بنکنگ) میں محض تسمیات کو تبدیل کرنے اور بعض سطحی قسم کی، برائے نام اور غیر مؤثر جزوی و فروعی تبدیلیوں کے ساتھ اسے ’اسلامی‘ بنانے کا عمل ’اجتہاد‘ کہلا سکتا ہے؟ اگر کوئی اسے اجتہاد سمجھتا ہے تو اسے یہ حق ہے کہ وہ ایسا سمجھے لیکن جس پس منظر کا ہم نے ابھی ذکر کیا ہے اس میں ہماری طالب علمانہ رائے میں اس کے ڈانڈے تجدد سے جا ملتے ہیں ۔ اگر کوئی مسلمان حاکم آج علماء و سکالرز اور ماہرین سے کہے کہ وہ ملک میں اسلام کا معاشی نظام نافذ کرنا چاہتا ہے، وہ اسے ایک مکمل تفصیلی ڈھانچہ بنا کر دیں تو یہ بلاشبہ اجتہاد ہے۔ اسی طرح اگر کوئی مسلم حکمران یہ کہے کہ موجودہ معاشی نظام غیر اسلامی ہے، اس سارے کو بدل کر اسلام کے مطابق کر دو تو یہ بھی اجتہاد ہے۔ یا اگر کوئی مسلمان عالم یا سکالر اپنے طور پر یا کچھ لوگ باہم مل کر اسلام کے معاشی نظام کا ایک تفصیلی ڈھانچہ تجویز کرتے ہیں ،خواہ کوئی حاکم اس پر عمل کرے یا نہ کرے، تو بلاشبہ یہ بھی اجتہادی کاوش ہے۔ لیکن اسلام اور مسلم دشمنوں کے بنائے ہوئے اور کفر و الحاد پر مبنی ایک مکمل معاشی نظام کو ایک مسلمان ملک میں نافذ اور جاری رکھنے کو تسلیم کرنا اور اس کے ایک جزو کا محض نام تبدیل کرکے اور اس میں چند سطحی، غیر مؤثر اور معمولی برائے نام ظاہری تبدیلیاں کرکے، جن سے نہ اس کا مزاج بدلے اور نہ مقاصد اور طریق کار اسے اسلامی قرار دینا، یہ اجتہاد نہیں تجدد ہے۔ اجتہاد کی تعریف اور توضیح اوپر گزر چکی۔ تجدد یہ ہے کہ کوئی چیز واضح طور پر غیر اسلامی ہو اور اسے بہ تکلف اسلامی بنانے کی کوشش کی جائے۔ مغرب کا ہیومنزم، سیکولرزم اور کیپٹل ازم واضح طور پر غیر اسلامی ہیں ، اُنہیں ان کے فریم ورک (مقاصد، ڈھانچے اور طریق کار) میں باقی رکھتے ہوئے ان کے کسی ایک جزو کو محض نام تبدیل کر کے اور معمولی لیپا پوتی سے اسے اسلام کا لباس پہنانا اور اسے اسلام کے مطابق قرار دینا یہ اجتہاد نہیں ، تجدد ہے ۔ یہ مغربیت کو تبدیل کر کے اسے مطابق اسلام بنانا نہیں بلکہ مغربیت کو اسلام کا لباس پہنانا اور اسلام کو مغربیت کے مطابق ڈھالنا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ تجدد کو ردّ کرنا شرعی تقاضا ہے کیونکہ یہ اِحداث فی الدین اور بدعت کی