کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 201
باری آ یا چاہتی ہے۔ دوسرے، مغرب اور ان کے مقامی آلہ کار حکمرانوں کی سازشوں کی وجہ سے بیشتر مسلم ممالک میں اسلامی عناصر برسر اقتدار تو نہ آ سکے تاہم اُنہوں نے منظم ہو کر اورسیاسی جماعتیں اور ادارے بنا کر حکمرانوں پر دباؤ جاری رکھا کہ وہ مسلم ریاست کا نظام اسلامی اُصولوں کے مطابق چلائیں خصوصاً معاشی نظام کو سود سے پاک کریں ، زکوٰۃ و عشر کے لئے ادارے بنائیں ، تقسیم دولت کا نظام درست کریں ، خود انحصاری کی طرف آئیں اور اسلامی معیشت کے دوسرے اُصولوں کو نافذ کریں ۔ اسلامی عناصر کے دباؤ پر مسلمان حکمران مجبور ہو کر بعض اوقات تھوڑی بہت اور برائے نام سرگرمی ان معاملات میں دکھاتے ہیں لیکن چونکہ ان میں سے اکثریت کی نیت ٹھیک نہیں ہوتی اور وہ اسلام کے معاشی نظام پر عمل کرنے میں مخلص نہیں ہوتے بلکہ مغربی تہذیب سے مرعوب ہونے کی وجہ سے یہی سمجھتے ہیں کہ ترقی کا مغربی ماڈل ہی درست اور قابل عمل ہے۔ اور نہ ہی مغربی آقا اُنہیں کسی سنجیدہ اسلامی تبدیلی کی اجازت دیتے ہیں چنانچہ وہ معمولی، سطحی اور برائے نام قسم کے اقدامات کرتے ہیں جس سے نام تو اسلام کا آ جائے اور بھولے بھالے عوام اور مولوی خوش ہو جائیں کہ اسلام نافذ ہو گیا ہے لیکن عملاً سنجیدہ اور مؤثر اقدامات نہیں کئے جاتے۔ پاکستان ہی کی مثال لیجئے کہ بنکوں کے سودی کھاتوں کو ’نفع نقصان کھاتوں ‘ کا نام دے دیا گیا۔ اجارہ اور مضاربہ جیسی اسلامی اصطلاحات استعمال کی جانے لگیں اور تسمیات کے ساتھ ظاہری ڈھانچے میں معمولی تبدیلی کر دی گئی لیکن سودی نظام اپنے تفصیلی ڈھانچے، مقاصد اور طریق کار کے ساتھ، جیسا کہ اہل مغرب نے اسے اپنے نظریات کے مطابق بنایا تھا اصلاً باقی رہا جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ بنک جو اپنے آپ کو ’اسلامی‘ کہتے ہیں وہ اس شرحِ سود سے جو عام سودی کمرشل بنک دیتے ہیں ، بہت زیادہ نیچے یا اوپر نہیں جاتے بلکہ اسی شرح سود کے قریب رہتے ہیں اور معمولی کمی بیشی کے ساتھ ان کا طریق کار وہی ہے جو کمرشل سودی بنکوں کا ہے، جیسا کہ علماے کرام نے اپنے متفقہ فتویٰ میں کہا ہے۔ اس وضاحت کے بعد اب سوال یہ ہے کہ کیا مغرب کے ہیومنزم، سیکولرزم اور کیپٹل ازم