کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 199
لہٰذا اگر کوئی عالم دین آج اسلام کے معاشی نظام کی فروعات اور اس کی عصری تطبیقات پراجتہادی نقطہ نظر سے کام کرنا چاہتا ہے تو وہ یہ کام اس وقت تک صحیح رخ میں نہیں کر سکتا جب تک وہ عصری حوالے سے مندرجہ ذیل حقائق سے باخبر نہ ہو:
1. مسلمان اس وقت زوال پذیر ہیں اور ان کی تہذیب مغلوب ہو چکی ہے۔
2. اہل مغرب کی ایک ایسی تہذیب اس وقت دنیا میں غالب ہے جس کی بنیادیں کفر والحاد پر کھڑی ہیں اور ان ملحدانہ بنیادوں پر اُنہوں نے جو معاشی نظام تشکیل دیا ہے، وہ بھی غیر اسلامی اور خلافِ اسلام اُصولوں پر مبنی ہے جیسے سود، قمار، استحصال، باطل طریقوں سے مال کمانا اور ناجائز مدات میں خرچ کرنا وغیرہ۔
3. اہل مغرب یہود و نصاریٰ ہیں اور قرآن و سنت کی واضح نصوص موجود ہیں کہ وہ اسلام و مسلمان دشمن اور ان کے بدخواہ ہیں ۔[1]
4. ہر وہ مسلمان، جس کی عقل سلامت ہے اور جو بصارت و بصیرت سے محروم نہیں ہے، یہ دیکھ سکتا ہے کہ مغربی تہذیب کی علمبردار اقوام اور ممالک، اِسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں ۔ اُنہوں نے اسلام پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے روبہ زوال ملت ِاسلامیہ کے خلاف سازشیں کیں ، اُنہیں گرایا، ان کے علاقوں پر قبضہ کیا، ان کو غلام بنایا، ان کے معاشی وسائل لوٹے، ان کے اجتماعی ادارے تباہ کئے اور ان کی جگہ اپنی فکر و تہذیب کے مطابق اجتماعی ادارے از سر نو تشکیل دیئے۔ اُنہوں نے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی بھر پور جدوجہد کی اور اس میں ناکامی پر انہوں نے مسلمانوں کے نظامِ تعلیم و تربیت کو بدل ڈالا تاکہ وہ مسلمانوں کے دل و دماغ فتح کر سکیں ، اُنہیں اسلام سے دورکر سکیں اور اسلام کی بجائے اپنی فکر و تہذیب کا شائق بنا سکیں تاکہ مسلمان ہمیشہ ان کے غلام اور برائے نام مسلمان رہیں ۔
اُن کے اِن تمام اسلام اور مسلم کش اقدامات کے باوجود اُمت ِمسلمہ نے غیرت و حمیت کا ثبوت دیا اور ان کی مزاحمت جاری رکھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کفار کو آپس میں لڑا کر (پہلی اور