کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 198
4. یہ اجتہاد نہیں ، تجدّد ہے جو ناقابل قبول ہے
اسلام میں اجتہاد کا تصور کیا ہے اور کیا بنکوں کے نظام کو اسلام کے مطابق بنانے کی کوشش کرنا اجتہادی عمل ہے؟ اسلام میں اجتہاد کا تصور یہ ہے کہ نصوص چونکہ محدود ہیں اور انسانی مسائل و مشکلات لامحدود ہیں لہٰذا اگر کسی معاملے میں نصوص میں واضح شرعی حکم موجود نہ ہو تو نصوص کی روشنی میں ، ان پر قیاس کرتے ہوئے اور ان کی روح اور مقاصد شریعت کو سامنے رکھتے ہوئے اس معاملے میں حکم شرعی دریافت کرنے کی کوشش کی جائے۔ [1]
معاملات میں چونکہ شارع کا اُسلوب یہ ہے __ جو سراسر حکمت پر مبنی ہے __ کہ اس نے ان کا تفصیلی ڈھانچہ فراہم نہیں کیا بلکہ پالیسی اُصول دینے پر اکتفاکیا ہے لہٰذا پالیسی اُصولوں کی حامل نصوص اور شریعت کے مقاصد ِعامہ کو سامنے رکھتے ہوئے معاملات سے متعلق اداروں کے تفصیلی ڈھانچے تیار کرنا بلاشبہ ایک اجتہادی کام ہے۔ چنانچہ معاشی نظام سے متعلق پالیسی اُصولوں پر مبنی نصوص اور شریعت کے مقاصد ِعمومی کو سامنے رکھتے ہوئے تفصیلی معاشی نظام کی تشکیل بلاشبہ کارِاجتہادہے اور اُمت کے جلیل القدر فقہا اور مجتہدین یہ کام ماضی میں بھی کرتے رہے ہیں اور بلا شبہ آج بھی اس کی ضرورت ہے۔
لیکن جو لوگ اجتہاد کے اس عمل سے واقف ہیں (یعنی اہل علم وتفقّہ) وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس اجتہاد کے لئے محض قرآن و سنت، عربی زبان اور اسلام کے معاشی اُمور میں مہارت کافی نہیں بلکہ جن امور میں اور جن حالات میں اجتہاد کرنا ہو[فقہ الواقع]، ان سے گہری واقفیت بھی ضروری ہے ۔ بلکہ کوئی مجتہد اس وقت تک اجتہاد کا حق ادا کر ہی نہیں سکتا جب تک وہ ان حالات کا گہرا ادراک نہ رکھتا ہو جن میں اسے اجتہاد کرنا ہے۔ اس لئے اُصولِ فقہ میں مجتہدکی شرائط اور اہلیت کے حوالے سے یہ ایک مسلمہ اور متفقہ اُصول ہے کہ مجتہد حالاتِ حاضرہ سے اور جس معاملے میں وہ اجتہاد کرنے جا رہا ہے، اس کے متعلق حالات و عصری کوائف سے بخوبی واقف ہو۔[2]