کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 197
جب یہ ثابت ہو گیا کہ اسلام اور مغربی تہذیب کا ورلڈویو ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد ہے اور ان باہم متضاد اُصولوں کی وجہ سے جو اجتماعی ادارے وجود میں آتے ہیں ، خصوصاً معاشی نظام، وہ بھی اپنے مقاصد اور طریق کار کے لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد ہیں تو اس کا لازمی اور منطقی نتیجہ یہ ہے کہ ان میں نہ تو تطبیق وتلفیق ممکن ہے اور نہ ان دونوں کو ایک دوسرے میں ضم کیا جا سکتا ہے۔ یہ دو الگ جسم ہیں جن کی کیمسٹری ایک دوسرے سے الگ ہے لہٰذا ان میں باہم انسجام و انضمام ممکن ہی نہیں ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے دو افراد کا بلڈ گروپ اگر ایک نہ ہو تو ایک کا گردہ دوسرے کو نہیں لگ سکتا۔ بلکہ آپریشن کر کے اگر ایک کا گردہ دوسرے کے جسم میں لگا بھی دیا جائے تو دوسرے فرد کا جسم اسے قبول نہیں کرتا اور وہ گردہ صحیح کام نہیں کرتاکیونکہ دونوں کا بلڈ گروپ مختلف ہوتا ہے۔
بعینہٖ مغرب کا ایک معاشی نظام ہے جو ایسے اُصولوں پر قائم ہے جو اپنی کنہ میں غیر اسلامی اور خلافِ اسلام ہیں ، لہٰذا اس معاشی نظام کے ایک جزو یعنی بنکنگ میں ، جو سود اور سرمایہ دارانہ نظام کے دیگر ’غلط‘ اُصولوں کے تحت کام کر رہا ہے، اس میں سرمایہ دارانہ نظام کے مخالف و متضاد کسی اسلامی اُصول کا پیوند کیسے لگایا جا سکتا ہے؟ اور اگر لگا بھی دیا جائے تو وہ صحیح کام کیسے کر سکتا ہے اور اچھے نتائج کیسے دے سکتا ہے؟ یہ چیز عقلاً محال اور منطقی طور پر ناقابل فہم ہے جیسے کہ بلڈ گروپ کے اختلاف اور انتقالِ گردہ کی مذکورہ بالا مثال سے واضح ہے۔
اسلام کا معاشی نظام اور مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام دو مختلف پیراڈائم ہیں لہٰذا ایک پیراڈائم کی ایک چیز لے کر دوسرے پیراڈائم کے کسی خانے میں کیسے فِٹ کی جا سکتی ہے؟ اور اگر کوئی ایسا کرے بھی تو اس طرح کا نظام قابل عمل کیسے ہو سکتا ہے اور اچھے نتائج کیسے دے سکتا ہے؟ خلاصہ یہ کہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کے تحت قائم کردہ بنکنگ کے نظام کو اسلامی سانچے میں ڈھالا جاہی نہیں سکتا۔ یہ اجتماعِ ضدین ہے، جو عقلاً محال اور منطقی طور پر ناقابل عمل ہے۔