کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 196
ہو گیا ہے،نتیجتاً انسان معاشی حیوان بن کر رہ گیا ہے جسے صرف اپنے معاشی مفاد سے غرض ہے۔ اس چیز نے وہاں ذہنی اضطراب اور ذہنی دباؤ کی شکل اختیار کر لی ہے، نفسیاتی امراض کی کثرت ہے اور لوگ زندگی سے منہ موڑ کر خود کشیاں کرنے لگے ہیں ۔ اگرچہ مغرب میں معاشی جبر اور ظلم و ستم کا وہ ماحول اب موجود نہیں رہا جو اُنیسویں صدی تک وہاں موجود تھا اور جس کے رد عمل میں کمیونزم جیسا انتہا پسندانہ معاشی نظام ابھرا لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیاں اب بھی اپنی جگہ موجود ہیں جن کی وجہ سے مغرب کے چند صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں سرمائے کا ارتکاز ہو گیا ہے اور دوسری قومیں وسائل سے محروم ہیں جو بجا طور پر یہ سمجھتی ہیں کہ ان ترقی یافتہ ممالک کی خوشحالی ماضی میں ان کے معاشی وسائل کے استحصال کانتیجہ ہے۔اس عدمِ مساوات نے کشمکش اور احتجاج کو جنم دیاہے اور G-8 اور G-2(( کا اجلاس جہاں بھی ہوتا ہے، خود مغرب کے فہیم عناصر اس کی مخالفت اور اس کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں ۔یوں مغرب کے سرمایہ دارانہ معاشی نظام کی ناانصافی اظہر من الشمس ہے،باقی افراد کے اخلاق و کردار پر اس نے جو تباہ کن اثرات ثبت کئے ہیں ، وہ اس پر مستزادہیں ،پوسٹ ماڈرنسٹ فلا سفر اور ماہرین معیشت اس پر سخت تنقیدیں کر رہے ہیں ۔[1] اِس مختصر تجزیے اور تقابلی مطالعے سے واضح ہے کہ مغرب کا معاشی نظام اپنے اُصولوں اور نتائج کی رو سے اسلام کے معاشی نظام سے متصادم اور متضاد ہے۔ 3.مغرب کے معاشی نظام میں اسلام کا پیوند نہیں لگ سکتا