کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 195
پابند ہوتا ہے۔ یعنی وہ صرف حلال اور پاکیزہ ذرائع سے مال کماتا ہے اور صرف ان مدات میں اسے خرچ کرتا ہے جن کی اسے اللہ اجازت دیتا ہے۔ اسلام انسان کو معاشی جدوجہد کے ساتھ قناعت اور توکل کا درس بھی دیتا ہے اور یوں اسے حرص، ہوس اور حسد سے بچاتا ہے۔ اسلام جنہیں وسائل رزق دیتا ہے، اُنہیں اسے غریبوں ، یتیموں ، بیواؤں ، مسکینوں اور خیر کے دوسرے کاموں پر خرچ کرنے پر اُکساتا ہے۔ مالِ تجارت، زیورات، معادن، زراعت اور لائیو سٹاک میں سے کچھ حصہ لازمی طور پر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے (زکوٰۃ) [1] بلکہ آخرت میں اللہ کی خوشنودی اور غریبوں کی مدد کے لئے اپنی ضرورت سے زائد سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔[2]اسلام کی ان تعلیمات سے معاشرے میں انصاف اور عدلِ اجتماعی کا ماحول پیدا ہوتا ہے اور ایک جنت نظیر معاشرہ وجود میں آتا ہے جو حرص، ہوس، حسد، فراڈ، رشوت اور بددیانتی سے پاک ہوتا ہے، لوگ ایک دوسرے کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں ، معاشرے میں اخوت اور بھائی چارہ بڑھتا ہے اور قناعت، توکل اور اطمینانِ قلب کی کیفیت میسر آتی ہے ۔[3] اس کے مقابلے میں مغرب میں چونکہ ہیومنزم اور سیکولرزم جیسے نظریات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کاصحیح تصور گہنا گیا ہے اور آخرت کے مقابلے میں دنیا کی ترجیح کا تصور غالب آگیا ہے لہٰذا دنیا اور دولت کی محبت وہاں بنیادی قدر کی حیثیت اختیار کر گئی ہے دین و اخلاق کا پہلوغالب نہ ہونے کی وجہ سے حرص، ہوس، حسدہرقیمت پر اور جلد سے جلد امیر ہونے کی خواہش نے اَفراد کو دنیاوی اُمور میں مسابقت اور ہر قیمت پر معیارِ زندگی بلند کرنے کی دوڑ میں شامل کر دیا ہے، اسی بنا پر وہاں سے صبر، توکل، قناعت اور اطمینانِ قلب رخصت