کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 194
مغرب میں کارپوریٹ ملکیت کے تصور نے اس کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔اس کے رد عمل میں کمیونزم نے فرد سے حق ملکیت کلی طور پر چھین لیا اور یہ حق ریاست کو دے کر فرد کو اس کا غلام بنا دیا۔ اسلام ان دونوں انتہاؤں کے مقابلے میں ایک معتدل اور متوازن راہ اختیار کرتا ہے۔ اس نے فرد کو حق ملکیت دیا لیکن کسب ِرزق پر اخلاقی پابندیاں عائد کر کے اسے لامحدود نہیں رہنے دیا۔ اسی طرح اس نے اجتماعی مفاد کے مقابلے میں فرد کے حق ملکیت پر قد غن لگا دی اور دوسری طرف اس نے ریاست کی آمریت کے مقابلے میں فرد کی آزادی کی حمایت کی۔[1] 3. کسب ِوسائل اور صَرفِ وسائل پر اخلاقی قیود کی نفی:مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام چونکہ نظامِ معیشت میں کسی منزل من اللہ دین کی سیادت کو نہیں مانتا لہٰذا وہ ان اخلاقی پابندیوں کو بھی ردّ کر دیتا ہے جو اللہ اور اس کا رسول عائد کرتے ہیں مثلاً حلال و حرام کی پابندی یا باطل طریقوں سے مال کمانے پر پابندی۔ چنانچہ مغرب میں جوئے کی آمدنی جائز ہے، اور ناچ گانے کی آمدنی اور شراب فروخت کر کے حاصل ہونے والی آمدنی بھی قانونی اور جائز ہے۔ اسی طرح مغرب کا معاشی نظام، صَرفِ وسائل پر بھی کوئی اخلاقی پابندی عائد نہیں کرتا مثلاً وہاں ایک شخص شادی کئے بغیر کسی گرل فرینڈ کے ساتھ ازدواجی زندگی گزار سکتا اور اس پر لاکھوں روپے خرچ کر سکتا ہے اورایسا کرنا جائز اور قانونی ہے۔ اسی طرح شراب نوشی، جوئے، زنا، لواطت وغیرہ پرخرچ کرنا جائز اور قانونی ہے۔ اسی طرح گورنمنٹ کا ٹیکس دینے کے بعد ہر طرح کا اِسراف بھی جائز ہے۔ 4. حاصلات میں فرق: اسلام کے معاشی نظام میں فرد ایک پاکیزہ اور مطمئن زندگی گزار سکتا ہے۔ اسلام کی رو سے ہر چیز کا مالک اللہ ہے اور انسان کو دنیا میں جو وسائل ملتے ہیں ، وہ اللہ کی توفیق کا نتیجہ ہوتے ہیں ، نہ کہ اس کے زورِبازو کا۔ [2]لہٰذا انسان کی حیثیت ایک امین کی سی ہوتی ہے اور بحیثیت ِعبد کسب ِدولت اور صَرفِ دولت میں وہ اللہ کے احکام کی تعمیل کرنے کا