کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 193
2. مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام اسلامی نظام معیشت سے متصادم ہے
اہل مغرب نے الٰہی ہدایت کا انکاراور اپنی عقل و نفس پر اعتماد کرتے ہوئے اپنا اجتماعی نظام اور اجتماعی ادارے خود وضع کئے ہیں ۔ بحیثیت ِمسلمان ہم سمجھتے ہیں کہ ان فاسد افکار و عقائد کی بنیاد پر اِداروں اور تمد ن کی جو عمارت کھڑی ہو گی، وہ بھی لازماً فساد فی الارض پر منتج ہو گی۔ سطورِ ذیل میں ہم مغرب کے اختیار کردہ معاشی نظام کے اہم اُصولوں کا ذکر کریں گے۔[1]اور یہ بتائیں گے کہ وہ اسلام کے پیش کردہ معاشی اصولوں کے بالکل متضاد ہیں :
1. معیشت کی بنیاد سرمایہ داری ہے: نظامِ معیشت میں بنیادی حیثیت سرمایہ کو حاصل ہے۔ اس سے یہ اُصول بھی مستنبط ہوا کہ محض سرمائے کے استعمال سے افزائشِ دولت جائز ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے ’سود‘ کہا جاتا ہے یعنی محنت کو شامل کئے بغیرمحض پیسے سے مزید پیسے کمانا ۔ یہی چیز غریبوں کے استحصال کا سبب بنتی اور ارتکازِ دولت کو جنم دیتی ہے جس سے غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتے چلے جاتے ہیں ۔
اس کے ردّ عمل میں کمیونزم کا نظام اُبھرا جس نے سرمائے کی برتری کو ردّ کرتے ہوئے انسانی محنت کو معیشت میں بنیادی حیثیت دی اور دوسری انتہا تک چلا گیا۔ ان دونوں کے مقابلے میں اسلام نے اپنے نظامِ معیشت میں انسان اور اس کی اخلاقی اور روحانی زندگی کو بنیادی اہمیت دی اور سرمائے اور محنت دونوں کے لئے ایک متوازن کردار تجویز کیا۔ اس نے ایک طرف سود کی نفی کی تو دوسری طرف محنت کو بھی اس کا جائز مقام دیا۔[2] یوں اسلام نے ایک معتدل اور متوازن معاشی فکر دی اور مسلمانوں نے اپنے ہزار سالہ دورِ اقتدار میں اپنے معاشی نظریے کو قابل عمل اور انسان کی معاشی ترقی میں اس کا ممدو معاون ہونا عملاً ثابت کر کے دکھا دیا۔
2. لامحدود حقِ ملکیت: نظامِ سرمایہ داری میں فرد کو لامحدود حقِ ملکیت حاصل ہے۔ یہ چیز بسا اوقات استحصال کا سبب بنتی ہے اور معاشرے کے اجتماعی مفادات کو نقصان پہنچاتی ہے۔