کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 192
مغرب میں اس کے علاوہ بھی بہت سے ازم ہیں جیسے لبرلزم، یوٹیلی ٹیرنزم (Utilitarianism)، ری ڈکشنزم (Reductionism) … وغیرہ لیکن جن چار اہم تصورات کا ہم نے سطورِ بالا میں ذکر کیا ہے، اگر ہم صرف انہی کو سامنے رکھیں تو مغرب کا جو ورلڈ وِیو (تصورِ انسان، تصورِ اِلہ اور تصورِ کائنات) سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ اس کے تصورِ انسان کی رو سے انسان خود اپنی مرضی کا مالک ہے، خود مختارہے اورکسی کا عبد نہیں ہے۔ اس کا تصور اِلہ یہ ہے کہ کوئی بالاترہستی ایسی نہیں جس کی اطاعت اس پر لازم ہو۔ دوسرے لفظوں میں وہ اپنا خدا خود ہے (ہیومنزم)۔ اور اگر کوئی خدا ہے بھی تو اسے انسان کے اجتماعی معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں ۔ گویا یہ انسانوں کی مرضی اور اختیارہے کہ وہ خدا کے دائرۂ کار کا تعین کریں (سیکولرزم)۔ کیپٹل ازم کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی زندگی ہی سب کچھ ہے اور ہماری ساری تگ و دو کا محور یہی زندگی ہونی چاہیے گویا عملاً آخرت کی نفی۔ اسی طرح ایمپریسنرم کا حاصل ہے: وحی کی سیادت کا انکار اور عقل و حواس ہی کو منبع علم و حقائق سمجھنا۔ اس مختصر تجزیے سے واضح ہے کہ مغرب کا ورلڈ ویو اسلام کے ورلڈ ویو کے برعکس ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ انسان عبد ہے اور ایک اللہ ہی معبود اور مطاع ہے جب کہ ہیومنزم اور سیکولرزم کی رو سے اللہ کی بجائے خود انسان مختارِ کل اور مختارِ مطلق ہے۔ کیپٹل ازم کی رو سے دنیا ہی سب کچھ ہے۔ جب کہ اسلام کی رو سے آخرت ہی سب کچھ ہے اور اسے دنیا پر ترجیح حاصل ہے۔ ایمپریسنرم کی رو سے صرف عقل و حواس ہی منبعِ علم ہیں جب کہ اسلام کی رو سے اللہ کی طرف سے آئی ہوئی وحی (قرآن حکیم) ہی حقیقی اور حتمی علم ہے۔ ان اُمور سے واضح ہوتاہے کہ مغرب کے وہ افکار و نظریات جن پر اس کی تہذیب کی عمارت کھڑی ہے، صریحاً خلافِ اسلام ہیں بلکہ اسلامی عقائد سے متصادم ہیں ۔ اسلام نام ہے اللہ کی غیر مشروط اطاعت کا اور مغرب کے مذکورہ بالا افکار کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی غیر مشروط اطاعت کا انکار۔ یہی کفر ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی ہدایت کا انکار اور انسان کا اپنی مرضی پر اصرار۔ گویا یہ کہنا محض ایک حقیقت کا اظہار ہے اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ مغرب کی فکری بنیادیں کفر و اِلحاد پر مبنی ہیں ۔