کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 191
ہیومنزم(Humanism):کائنات میں مرکزی حیثیت انسان کو حاصل ہے۔ وہ آزاد اور خود مختار ہے، کہ زندگی کے بارے میں جو فیصلہ چاہے کرے اور یہ طے کرے کہ اسے زندگی کن اُصولوں کے مطابق گزارناہے۔ وہ ’اللہ‘ جیسی کسی بالاتر ہستی کا ’عبد‘ نہیں ہے جس کے احکام کی اطاعت اس پر لازم ہو بلکہ وہ خود مختار اور مختارِ کل ہے اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی ، حق و باطل، خیر و شر، جائز و ناجائز اور حلال و حرام کے بارے میں جو چاہے فیصلے کر سکتا ہے۔
سیکولرزم(Secularism):بالفرض اگر کسی کو خدا کو ماننا بھی ہے تو وہ اپنی ذاتی زندگی میں (انفرادی حیثیت سے) اسے مان سکتا ہے لیکن اس خدا کو انسانوں کے اجتماعی معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ مطلب یہ کہ سول سوسائٹی اور ریاست کے معاشی، معاشرتی، قانونی، تعلیمی، سماجی… ڈھانچے اور نظام میں اللہ کو دخل دینے کا کوئی حق نہیں بلکہ انسان آزاد ہے کہ ان معاملات میں اپنی مرضی اور اپنی عقل سے جو فیصلے چاہے کرے۔
کیپٹل ازم(Capitalism): سرمایہ دارانہ نظام کا لب ِلباب یہ ہے کہ انسان کی ساری کوششوں کا محور دنیا اور اس کی دولت ہونی چاہئے۔ دوسرے لفظوں میں سرمایہ دارانہ ذہنیت کا حاصل ہے: حب ِدنیا اور حب ِمال۔ مطلب یہ کہ انسان کی ساری تگ و دو اس غرض سے ہونی چاہئے کہ اسے دنیا میں زیادہ سے زیادہ آسائشیں اور سہولتیں ملیں ۔ اس کا مطمحِ زندگی یہ ہو کہ بنک بیلنس بڑھے، کار ہو، کوٹھی ہو اور معیارِ زندگی بلند سے بلندتر ہو۔ حب دنیا اور حب مال کی اس دوڑ کا لازمی نتیجہ ہے: آخرت سے اِغماض اور اس کی عدمِ اہمیت اور عدمِ ترجیح۔
ایمپریسزم(Empiricism): ایمپریسزم کا مطلب یہ ہے کہ علم حقیقی کا منبع صرف عقل و حواس ہیں ۔ یعنی حق صرف وہ ہے جو عقلی معیار پر پورا اُترے اور مشاہدے اور تجربے میں آ سکے۔ جو اِن معیارات پر پورا نہ اُترے وہ علم نہیں ، اس کے حق اور حتمی طور پر صحیح ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں بلکہ ایسے نظریات عموماً غیر سائنٹفک اور تو ہمات پر مبنی ہوتے ہیں ۔