کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 190
کے مطابق سودی ہی ہے، لہٰذا غیر شرعی اور ناقابل قبول ہے۔ ہمیں اس فتویٰ سے سو فیصد اتفاق ہے اور ہم اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں لیکن اس مضمون میں ہماری ترکیز اس نکتہ پر نہیں ہے بلکہ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مزعومہ ’اسلامی بنکنگ‘ کی بنیادی فکر اور اپروچ ہی غلط ہے کیونکہ
1. اسلام اور مغربی تہذیب کی فکری بنیادیں ایک دوسرے سے متضاد ہیں ۔ لہٰذا
2. مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام اپنے اہداف اور طریق کارمیں اسلام کے معاشی نظام سے متصادم ہے۔ اور
3. چونکہ دو باہم متضاد عناصرمیں تلفیق ممکن نہیں اور نہ ہی اُنہیں ایک دوسرے میں مدغم کیا جا سکتا ہے لہٰذامغرب کے سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے کسی جزو میں اسلام کے معاشی نظام کے کسی ایک جزو کا پیوند نہیں لگ سکتا اور نہ اسے یہ پیوندلگا کر ’اسلامی‘ بنایا جا سکتا ہے۔
4. یہودیوں کے سودی نظام کو حیلے بہانے سے غیر سودی اور اسلامی قرار دینا اجتہاد اور تجدید نہیں ، تجدد اور بدعت ہے اور مغرب کے غیر اسلامی فکر و عمل کو مشرف بہ اسلام کرنا ہے بلکہ یہ اسلام کو مغربی فکر و عمل کے مطابق ڈھالنا ہے؛ لہٰذا یہ مردود اور ناقابل قبول ہے۔
5. مزعومہ ’اسلامی بنکنگ‘ کا یہ نظام اس لئے کامیابی سے چل رہا ہے کہ مغرب کے یہودی اور ان کے حواری حکمران اس مزعومہ ’اسلامی بنکنگ‘ کی حمایت اور سرپرستی کر رہے ہیں تاکہ مسلمانوں کی اربوں کھربوں کی دولت کا وہ حصہ، جو وہ بنکوں میں ان کے غیر اسلامی ہونے کی بنا پر نہیں رکھتے تھے ، گردش میں آ جائے اور دوسرے لفظوں میں ان کے تصرف میں آ جائے۔
لہٰذا ان اسباب کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’اسلامی بنکنگ‘ کی بنیادی اپروچ ہی فکری اور نظری حوالے سے غلط اور خلافِ اسلام ہے اور ناقابل قبول ہے۔سطورِ ذیل میں ہم انہی مذکورہ بالا پانچ نکات پر ذرا تفصیلی گفتگو کریں گے :
1. اسلام اور مغربی تہذیب کے بنیادی افکار ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد ہیں
مغربی تہذیب جن افکار و نظریات پر کھڑی ہے ان میں سے اہم یہ ہیں : [1]