کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 189
کرتا ہے، بعض مسلمانوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا یہ نظام سود کے بغیر نہیں چلایا جا سکتا؟ یوں ’اسلامی بنکنگ‘ کے بارے میں سوچ کی ابتدا ہوئی۔ برصغیر میں ’اسلامی معاشیات‘ کے حوالے سے جو ماہرین اور سکالرز سرگرم تھے (جیسے ہندوستان کے ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، پاکستان کے پروفیسر خورشید احمد اور سعودی عرب میں مقیم پاکستانی سکالر عمر چھاپرا وغیرہ) اُنہوں نے اس تصور کی حمایت کی کہ موجودہ سودی بنکوں کے نظام میں اگر اسلامی حوالے سے کچھ تبدیلیاں کر دی جائیں تو یہ بنکنگ اسلامی اور جائز ہو جائے گی۔ بعض مسلمان عرب سرمایہ داروں نے اس پر عمل کی ٹھانی، پھر بوجوہ مغرب نے اس منصوبے کی حمایت اور سرپرستی شروع کر دی نتیجتاً دھڑا دھڑ ’اسلامی بنک‘ کھلنے لگے بلکہ اب تو عام بنکوں نے بھی ’اسلامی کاؤنٹر‘ کھول کر اس کاروبار بلکہ ’کارِخیر‘میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے۔ علماے کرام کی اکثریت اس نظام کے سود پر مبنی ہونے کی وجہ سے اس کی مخالف تھی (اگرچہ بطور استثنیٰ کوئی اِکا دُکا عالم بنکوں کے سود کو’ربا‘ ماننے میں تردّد کا اظہار کرتا تھا) لیکن پاکستان کے مشہور عالم دین اور دارالعلوم کو رنگی کے سربراہ مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے … جو اس سے پہلے پاکستان کی سپریم کورٹ میں جاگیرداری کو اسلام کے مطابق قرار دینے کا فیصلہ سنا کر شہرت حاصل کر چکے تھے… مذکورہ ’اسلامی بنکنگ‘ کو شرعی اور اسلامی قرار دے کر اس کی حمایت اور سرپرستی شروع کر دی۔ ان کے اس رویے پر علماے کرام میں دبے لفظوں میں چہ میگوئیاں ہوتی رہیں ، لیکن بالآخر اگست ۲۰۰۸ء میں ملک بھر کے سرکردہ (دیوبندی) علماء اور دینی مدارس کے مفتی صاحبان نے کراچی میں جمع ہو کر مشترکہ فتوے کے ذریعے بالاتفاق ’اسلامی بنکنگ‘ کے اس نظام کو غیر شرعی اور غیر اسلامی قرار دے دیا۔[1] ان کے فتوے کی بنیاد یہ ہے کہ سودی نظام کی اساس پر قائم بنکوں نے اپنے نظام کو ’اسلامی‘ اور ’مطابق شریعت‘ بنانے کے لئے جو ذرائع (Tools) اور طریقے (Products) اختیار کئے ہیں ، وہ اسلامی حوالے سے ناکافی اور غیر مؤثر ہیں ، اور ان بنکوں کا نظام اپنی اصل