کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 187
نہیں ہو گا تووہ مشتری کو فائدہ ہو تا دیکھ کر معاملہ منسوخ کرنے اور قبضہ نہ دینے کا لالچ کرے گا۔ اوراگر قبضہ دے گا بھی تو آنکھیں بند کر کے اور نفع سے محرومی کا افسوس لئے ہوئے دے گا، چنانچہ اس کا نفس ادھر ہی متوجہ رہے گا، اس کا طمع ختم نہیں ہو گا۔یہ مشاہدے سے ثابت ہے، لہٰذایہ شریعت کا کمال اور خوبی ہے کہ جب تک چیز کو حاصل نہ کر لے اور اس کی ذمہ داری میں نہ آجائے، نفع ممنوع ہے تاکہ فروخت کنندہ منسوخ کرنے سے مایوس ہو جائے اور اس کا تعلق ختم ہو جائے۔‘‘ (تہذیب: ج۵/ص۱۵۳،۱۵۴) اس سے ثابت ہواکہ اگر مشتری نقصان کی ذمہ داری لے بھی لیتا ہے لیکن اپنے قبضہ میں نہیں لیتا توبھی اسی جگہ فروخت نہیں کر سکتاکیونکہ یہ بات فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت کے خلاف ہے ۔ کیا یہ حکم صرف خوردنی اشیاء کے لیے ہے:فروخت سے قبل خریدی گئی چیز کی نقل و حمل کاحکم صرف غذائی اجناس کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اس میں وہ تمام اشیا داخل ہیں جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتی ہیں ،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : وَلا اَحْسِبُ کُلَّ شَيْئٍ إلّا مِثْلَہ (صحیح بخاری:۲۱۳۵، باب بیع الطعام قبل أن یقبض) ’’میرے خیال میں تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔‘‘ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اس کے بارے میں رقمطراز ہیں : وھذا القول ھوالصحیح الذي نختارہ (تہذیب ج ۵/ص ۱۳۲) ’’یہی قول صحیح ہے جس کو ہم پسند کرتے ہیں ۔‘‘ اس کی تائید اوپر مذکورہ حضرت زید بن ثابتؓ کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں غلے کی بجائے سامان کا تذکرہ ہے۔ البتہ وہ اشیا جن کو دوسری جگہ منتقل کرنا ممکن نہیں جیسے اراضی اور مکانات ہیں ،ان کے قبضے کی نوعیت مختلف ہوگی۔ ان میں قبضہ کا معنی صرف اتناہے کہ فروخت کنندہ تمام رکاوٹیں دور کر کے مشتری کو تصرف کا پورا موقع فراہم کر دے۔اسی طرح جو اشیا ہاتھ میں لے کر قبضہ کی جاتی ہیں جیسے کرنسی نوٹ ہیں تو ان کا قبضہ یہ ہے کہ ان کو ہاتھ میں لے لیا جائے۔ (جاری ہے)