کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 186
نہیں کیونکہ ان کے خیا ل میں مصلحت بھی اسی میں ہے اور خرابیوں کا سد ِ باب بھی اسی طرح ہو سکتا ہے۔‘‘ (تہذیب: ج ۵/ص ۱۳۷)
اس کا مطلب یہی ہے کہ جب تک خریدار فروخت کنندہ کے قبضہ سے مال چھڑا کر اپنے قبضہ میں نہیں لے لیتا،آگے فروخت نہ کرے تا کہ نزاع کا خطرہ نہ رہے۔کیونکہ جب تک خریدارچیز اپنے قبضہ میں نہیں لیتا، اس بات کا اندیشہ باقی رہتا ہے کہ فروخت کنندہ زیادہ نفع کے لالچ میں وہی چیز کسی اور کو فروخت نہ کردے۔
بعض اہل علم کے نزدیک جب بیچی گئی چیز کے نقصان کی ذمہ داری خریدار کی طرف منتقل ہوجائے اوراس کے اختیارپر کوئی قدغن باقی نہ رہے تو قبضہ متحقق ہو جاتا ہے، حقیقی طور پر چیز کو منتقل کرنا ضروری نہیں ہے کیونکہ حدیث میں ہے :
لاَ یَحِلُّ سَلَفٌ وَبَیْعٌ وَلاَ شَرْطَانِ فِی بَیْعٍ وَلاَ رِبْحُ مَا لَمْ یُضْمَنْ وَلاَ بَیْعُ مَا لَیْسَ عِنْدَ کَ (سنن ترمذی:۱۲۳۴،باب ما جاء في کراهية بیع ما لیس عندک)
’’ قرض اور بیع، ایک بیع میں دو شرطیں اور جس چیز کے نقصان کی ذمہ داری نہ لی گئی ہو، اس کا منافع جائز نہیں اور نہ ہی اس چیز کی بیع درست ہے جو تیرے پاس موجود نہ ہو۔‘‘
ان حضرات کی دلیل حدیث کے یہ الفاظ ہیں :
’’جس چیز کے نقصان کی ذمہ داری نہ لی گئی ہو، اس کا منافع جائز نہیں ۔‘‘
ان حضرات کے بقول یہاں قبضہ سے قبل فروخت ممنوع ہونے کی وجہ رسک نہ لینا بیان ہوئی ہے، لہٰذاجب مال کے نقصان کی ذمہ داری خریدار کی طرف منتقل ہو جائے تو وہ آگے فروخت کرسکتا ہے،دوسری جگہ منتقل کرناضروری نہیں ۔ مگر دو وجہ سے یہ استدلال درست نہیں ہے:
1. یہ اوپر مذکوران احادیث کے خلاف ہے جو اس امرپر صریح دلالت کررہی ہیں کہ فروخت سے قبل نقل وحمل لازمی ہے ۔
2. یہ استدلال فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت کے خلاف ہے ۔چنانچہ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اس کی تشریح میں رقم طرازہیں :
’’اس کی علت (کے تعین )نے بعض فقہا کو مشکل میں ڈال دیا ہے، حالانکہ یہ شریعت کے محاسن میں سے ہے کہ جب پوری طرح قبضہ نہیں ہوگا اور فروخت کنندہ کا اس سے تعلق ختم