کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 185
’’ اس سے پتا چلتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ منقولی چیز کوفروخت کنندہ سے وصول پانا اور اسے فروخت کنندہ کے ٹھکانے پر ہی رکھ چھوڑناشرعی قبضہ نہیں ہے تاآنکہ خریدار اسے ایسی جگہ لے جائے جو فروخت کنندہ کے لیے مخصوص نہ ہو۔‘‘ ممانعت کا سبب کیا ہے ؟ نامور تابعی حضرت طاؤوس رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے قبضہ سے قبل فروخت کرنے کی ممانعت کا سبب پوچھا تو انہوں فرمایا: ذَاکَ دَرَاہِمُ بِدَرَاہِمَ وَالطَّعَامُ مُرْجَأٌ(صحیح بخاری:۱۲۳۲ باب ما یذکر في بیع الطعام) ’’یہ درہم کے بدلے درہم کا لین دین ہے جبکہ غلہ وہیں پڑا ہوا ہے۔‘‘ یعنی سودی لین دین کے مشابہ ہونے کی بنا پر ناجائزہے، اس کی توضیح یوں ہے مثلاًخالد نے ایک لاکھ کی گندم خریدی اور وہاں سے منتقل کئے بغیر ایک لاکھ دس ہزار میں فروخت کر دی توگویااس نے رقم دی اور رقم ہی لی اور اس پر نفع کمایا،عملی طور پر کوئی خدمت انجام نہیں دی۔ امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی علت کی تحسین فرمائی ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں : وَہٰذَا التَّعْلِیلُ أَجْوَدُ مَا عُلِّلَ بِہِ النَّہْيُ؛ لِأَنَّ الصَّحَابَةَ أَعْرَفُ بِمَقَاصِدِ الرَّسُولِ صلی اللّٰه علیہ وسلم (نیل الاوطار: باب نھي المشتري عن بیع ما اشتراہ قبل قبضہ) ’’ممانعت کی باقی وجوہ کی نسبت یہ وجہ بہترین ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصدکو بہتر جانتے ہیں ۔‘‘ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ ممانعت کی وجوہ پر روشنی ڈالتے ہو ئے فرماتے ہیں : ’’ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ نہ تو قبضہ مکمل ہوا ہے اور نہ ہی فروخت کنندہ سے اس کا تعلق ختم ہوا ہے ، لہٰذا جب وہ دیکھے گاکہ خریدار کو اس سے خوب نفع حاصل ہو رہا ہے تو وہ معاملہ فسخ کرنے اور قبضہ نہ دینے کاسوچ سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے فسخ کے لیے بات ظالمانہ حیلے،جھگڑے اور عداوت تک جا پہنچے جیسا کہ واقعات اس کے شاہد ہیں ۔ چنانچہ حکمت پر مبنی شریعت ِکاملہ کی یہ خوبی ہے کہ اس نے خریدار پر یہ پابندی لگا دی ہے کہ جب تک خریدی گئی چیز پر قبضہ مکمل نہ ہو جائے اور فروخت کنندہ سے اس کا تعلق ختم نہ ہو اور اس سے چھڑا نہ لی جائے وہ اس میں تصرف نہ کرے تا کہ وہ بیع فسخ کرنے اور قبضہ نہ دینے کا سوچ نہ سکے ۔یہ وہ فوائد ہیں جن کو شارع نے نظر انداز نہیں کیا، حتیٰ کہ وہ تاجر بھی اُنہیں مد نظر رکھتے ہیں جن کو شریعت کا علم