کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 184
’’جو غلہ خریدے، وہ قبضہ سے قبل فروخت نہ کرے۔‘‘
٭ جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
کُنَّا فِي زَمَانِ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم نَبْتَاعُ الطَّعَامَ فَیَبْعَثُ عَلَیْنَا مَنْ یَأْمُرُنَا بِانْتِقَالِہِ مِنَ الْمَکَانِ الَّذِي ابْتَعْنَاہُ فِیہِ إِلَی مَکَانٍ سِوَاہُ قَبْلَ أَنْ نَبِیعَہُ (صحیح مسلم:۳۸۴۱،کتاب البیوع،باب بطلان بیع المبیع قبل القبض)
’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں غلہ خریدتے تو آپ ہمارے پاس ایک شخص کو بھیجتے جو ہمیں حکم دیتا کہ ہم بیچنے سے قبل جہاں سے خریدا ہے، وہاں سے اُٹھا کر دوسری جگہ لے جائیں ۔‘‘
٭ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
نَہٰی أَنْ تُبَاعَ السِّلَعُ حَیْثُ تُبْتَاعُ حَتَّی یَحُوزَہَا التُّجَّارُ إِلَی رِحَالِہِمْ (سنن ابو داود: ۳۴۹۹،باب في بیع الطعام قبل أن یستوفي)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس سے منع فرمایا کہ سامان کو وہاں بیچا جائے جہاں سے خریدا گیا تھاحتیٰ کہ تاجر اسے اپنے مقامات پر منتقل کر لیں ۔‘‘
٭ جو تاجر اس حکم کی تعمیل نہ کریں ان کے خلاف تادیبی کار روائی بھی کی جاسکتی ہے جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
رَأَیْتُ الَّذِینَ یَشْتَرُونَ الطَّعَامَ مُجَازَفَةً یُضْرَبُونَ عَلَی عَہْدِ رسول اللّٰه أَنْ یَبِیعُوہُ حَتَّی یُؤوْہُ إِلَی رِحَالِہِم
(صحیح بخاری:۱۲۳۱، باب ما یذکر في بیع الطعام)
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تخمینے سے اناج خریدنے والوں کی پٹائی ہوتی دیکھی یہاں تک کہ وہ اس کواُٹھاکر اپنے ٹھکانوں میں منتقل کر دیں پھر فروخت کریں ۔‘‘
مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں ثابت ہوا کہ تاجروں کے لیے یہ جائز نہیں کہ منقولی اشیا اپنی تحویل میں لے کردوسری جگہ منتقل کئے بغیر فروخت کریں ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی رائے بھی یہی ہے کہ چیز اُٹھائے بغیر شرعی قبضہ ثابت نہیں ہوتا، چنانچہ شارح بخاری علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
وَیُعْرَفُ مِنْ ذٰلِکَ أَنَّ اِخْتِیَار اَلْبُخَارِيّ أَنَّ اِسْتِیفَائَ اَلْمَبِیع اَلْمَنْقُول مِنْ اَلْبَائِعِ وَتَبْقِیَتَہُ فِي مَنْزِلِ اَلْبَائِعِ لَا یَکُونُ قَبْضًا شَرْعِیًّا حَتَّی یَنْقُلَہُ اَلْمُشْتَرِي إِلَی مَکَانٍ لَا اِخْتِصَاصَ لِلْبَائِعِ بِہٖ (فتح الباری: ج۴/ص۴۴۳)