کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 183
پاس منحرف ہونے کا اختیار نہ ہویا سودا مکمل ہو چکا ہو، صرف بقیہ رقم کی ادائیگی باقی ہو تو پھر آگے فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ اس سلسلہ میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مالک کے انکار کی صورت میں اس سے دگنا بیعانہ وصول کرنا شرعی لحاظ سے درست نہیں ہے ۔
٭ ملکیت کے بغیر فروخت کی تیسری صورت سٹاک مارکیٹ میں رائجShot Salesکی ہے۔ اس میں فروخت کنندہ ایسے شیئرز بیچ دیتا ہے جو اس کی ملکیت میں نہیں ہوتے لیکن اسے یہ اُمید ہوتی ہے کہ وہ کلیئرنگ سے قبل مارکیٹ سے سستے داموں حاصل کر کے خریدار کے حوالے کر دے گا ،یہ غیر ملکیتی شیئرز کی بیع ہے جو ناجائز ہے ۔اگر مارکیٹ میں مندے کی بجائے تیزی غالب رہے تو Shot Salesکرنے والوں کو اچھا خاصا نقصان اُٹھانا پڑتا ہے ۔جب بھی سٹاک مارکیٹ کسی بڑے بحران سے دوچارہوتی ہے، اس میں نمایاں کردار اسی شاٹ سیل کا ہوتا ہے ۔
4. قبضہ سے قبل فروخت نہ کریں
عصر حاضرمیں خریدی گئی چیز کو قبضہ میں لئے بغیر آگے فروخت کرنے کا عام رواج ہے بالخصوص درآمدات میں سامان منزلِ مقصود پر پہنچنے سے قبل کئی جگہ فروخت ہو چکا ہوتا ہے اور ظاہر ہے، ہر خریدار کچھ منافع رکھ کر ہی آگے فروخت کرے گا، اس لیے مارکیٹ پہنچتے پہنچتے اس چیز کی قیمت بڑھ کر کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک معاشی نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ بار برداری کے شعبہ سے وابستہ مزدوروں کا روزگار متاثر ہوتا ہے۔ یہ شریعت ِمطہرہ کے محاسن میں سے ہے کہ اس نے یہ قانون بنا دیا ہے جب کسی چیز کا سودا طے پاجائے اورخریداراس کو آگے فروخت کرنا چاہتا ہو تو اس کو چاہیے وہ اسے قبضہ میں لے کر کسی دوسری جگہ منتقل کر دے، اسی جگہ فروخت کرنا منع ہے۔
٭ چنانچہ احادیث ِصحیحہ سے ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلاَ یَبِعْہُ حَتَّی یَسْتَوْفِیَہُ ))
(صحیح بخاری:۲۱۳۶،کتاب البیوع باب بیع الطعام قبل أن یقبض)