کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 181
٭ کسی کی چیز زبر دستی لینے کی چوتھی صورت یہ ہے کہ حکومت کو عوامی مقاصد کے لیے کسی جگہ کی حقیقی ضرورت ہو اور مالکان بیچنے پر آمادہ نہ ہوں تو حکومت وہ جگہ زبردستی بھی حاصل کر سکتی ہے، تاہم حکومت پر فرض ہو گا کہ مالکان کو مارکیٹ ریٹ کے حساب سے ادائیگی کرے۔حکومت بازاری قیمت ادا کئے بغیر کسی شہری کو جائیدا د سے محروم نہیں کر سکتی۔ 2. خریدنے سے پہلے بیچنا ممنوع ہے ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تلقین بھی فرمائی ہے کہ بیچنے والا فقط اسی چیز کا سودا کرے جس کا وہ کلی طورپر مالک بن چکا ہو۔بعض دفعہ کاروباری حضرات کے پاس چیز موجود نہیں ہوتی مگر و ہ اس اُمید پر سودا طے کر لیتے ہیں کہ بعد میں کہیں سے خرید کر فراہم کر دینگے، ایساکرنا منع ہے،کیونکہ ممکن ہے مالک وہ چیز بیچنے پر آمادہ ہی نہ ہو یا وہ اس کی قیمت فروخت سے دگنی قیمت طلب کر لے اور یہ نقصان سے بچنے کے لیے خود ہی خریدنے پر تیار نہ ہو۔ اس طرح فریقین کے ما بین تنازعات جنم لینے کا اندیشہ ہے ، لہٰذاشریعت ِاسلامیہ نے ان کے سد باب کے لیے یہ اُصول بنا دیا ہے کہ وہ متعین چیزجوفی الحال فروخت کنندہ کی ملکیت میں نہ ہو، اس کا سودا نہ کیا جائے، جیساکہ جناب حکیم بن حزامؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : ’’میرے پاس ایک آدمی آتا ہے اور وہ مجھ سے ایسی چیز کا سودا کرنا چاہتا ہے جو میرے پاس نہیں ہوتی۔ کیا میں اس سے سودا کر لوں پھر وہ چیز بازار سے خرید کر اسے دے دوں ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوابافرمایا : (( لَا تَبِعْ ما لَیْسَ عِنْدَکَ)) (سنن النسائی:۴۶۱۷ باب بیع ما لیس عند البائع) ’’جو (متعین )چیز تیرے پاس موجود نہیں ، وہ فروخت نہ کر۔‘‘ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کا سوال متعین چیز کی فروخت کے متعلق ہی تھا۔متعین کا معنی ہے کسی مخصو ص پلاٹ یا گاڑی وغیرہ کا سودا کرنامثلاً یوں کہنا کہ میں فلاں سکیم کا فلاں نمبر پلاٹ آپ کو اتنے میں بیچتا ہوں جبکہ وہ اس وقت اس کی ملکیت نہ ہو، ایسا کرنا ناجائز ہے جیساکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے واضح ہے ۔ لیکن اگر تعین کی بجائے صرف مخصوص صفات بیان کی جائیں ، مثلاً یوں کہا جائے کہ میں تمہیں اتنی مدت بعدان صفات کی حامل فلاں چیز مہیا