کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 180
جاتی ہے، یہ ناپسندیدہ رویہ ہے جس کی اصلاح ہونی چاہیے۔ ٭ البتہ بعض صورتوں میں حکومت یا کوئی مجاز اتھارٹی مالک کو اس بات پر مجبور کر سکتی ہے کہ وہ اپنی چیز فروخت کرے : ٭ پہلی صورت یہ ہے کہ مقروض اپنے ذمے قرض ادا نہ کر رہا ہو اور اس کے پاس نقد رقم بھی موجود نہ ہو تو عدالت اس کو اپنی جائیداد فروخت کر کے قرض ادا کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔ اگر وہ عدالتی حکم کے باوجود لیت و لعل سے کام لے تو عدالت قرض خواہ کی داد رسی کے لیے خود بھی اس کی جائیداد مارکیٹ ریٹ پرفروخت کر سکتی ہے۔ ٭ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی شخص نے جائیداد رہن رکھ کر قرض لے رکھا ہو اور وہ متعدد مرتبہ کی یاد دہانی کے باوجود ادائیگی نہ کر رہا ہو تو قرض خواہ رہن شدہ جائیداد فروخت کر کے اپنا حق وصول پا سکتا ہے، چاہے مقروض اس پر راضی نہ بھی ہوبشرطیکہ عدالت اورقرض خواہ منصفانہ قیمت پربیچنے کو یقینی بنائیں ،اپنی رقم کھری کرنے کے لالچ میں کوڑیوں کے بھاؤ بیچنے کی اجازت نہیں ہے۔ ٭ تیسری صورت جبمالک کو اپنی اشیا فروخت کرنے پر مجبور کیا سکتا ہے، یہہے کہ جب غذائی اشیا کی قلت ہو اور کچھ لوگ ذخیرہ اندوزی کر رہے ہوں تو حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ تاجروں کو ذخیرہ کی گئی اشیا فروخت کرنے کا حکم دے، اگر وہ تعمیل نہ کریں توحکومت ان کی مرضی کے خلاف خود بھی مارکیٹ ریٹ پر فروخت کر سکتی ہے، جیسا کہ الموسوعة الفقهية میں ہے : إذا خیف الضّرر علی العامّة أجبر بل أخذ منہ ما احتکرہ وباعہ وأعطاہ المثل عند وجودہ أو قیمتہ وہذا قدر متّفق علیہ بین الأئمة ولا یعلم خلاف في ذلک (ج۲/ص۹۵) ’’جب عوام کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہو توحاکم ذخیرہ اندوز کو مجبورکرے گا بلکہ اس سے ذخیرہ شدہ مال لے کر فروخت کر دے گااور اس کو اس مال کا مثل جب موجود ہو یا اس کی قیمت دے گا۔اتنی بات تمام ائمہ میں متفق علیہ ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘