کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 179
رضامندی سے۔اور اپنے نفسوں کو قتل نہ کروبلا شبہ اللہ تمہارے ساتھ رحم کرنے والا ہے۔‘‘ سورہ نساء کی یہ آیت تجارتی اور معاشی تعلقات کے متعلق بنیادی اُصول پیش کر رہی ہے کہ وہ کاروباری اور تجارتی معاملات جن پر دونوں فریق یکساں مطمئن اور راضی نہ ہوں ، باطل ہیں ۔ یہ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ لین دین میں فریقین کی باہمی رضامندی لازم ہے ۔ شریعت ِاسلامیہ اس امر کی اجازت نہیں دیتی کہ کوئی کسی کو اپنی چیز بیچنے پر مجبور کرے یا زبر دستی اپنی پسند کی قیمت پر حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔اسلام نے ایک دوسرے کی جان ، مال اور عزت کویکساں محترم قرار دیا ہے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے لاٹھی جیسی معمولی چیز کی زبر دستی خرید وفروخت کو بھی قابل حرمت قرار دیا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشاد ہے : ’’کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کی لاٹھی( بھی) اس کی قلبی خوشی کے بغیر لے۔‘‘ (بلوغ المرام بحوالہ ابن حبان و الحاکم) بطورِ خاص خرید و فروخت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صریح فرمان ہے : (( إنما البیع عن تراض)) (إرواء الغلیل:ج۵/ ص۱۲۵) ’’بیع صرف باہمی رضامندی سے ہوتی ہے۔‘‘ واضح رہے کہ یہ رضا مندی حقیقی ہونی چاہیے نہ کہ مصنوعی۔لہٰذاکسی دباؤکے تحت یا غلط تاثرکی بنیادپریادوسرے فریق کوچیز کی حقیقت سے بے خبریا اصل قیمت سے دھوکے میں رکھ کر حاصل کی گئی رضامندی قابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ یہ مصنوعی ہوتی ہے، یہی وجہ ہے شریعت نے اس قسم کی دھوکہ دہی کی صورت میں متاثرہ فریق کو معاملہ منسوخ کرنے کا اختیار دیا ہے۔ اسی طرح ایک شخص اگر انتہائی بے بسی اور مجبوری کی بنا پر اپنی چیز بیچ رہا ہوتو ایسے شخص سے مارکیٹ ریٹ سے بہت کم پر خریدنا، اگرچہ بظاہر وہ اس پر راضی بھی ہوناجائز ہے، درست نہیں ۔ معمولی کمی بیشی کی تو گنجائش ہے لیکن بہت زیادہ فرق درست نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قلبی خوشی کی تاکید فرمائی ہے اور یہ بات طے ہے کہ مجبور شخص خوش دلی سے غیر معمولی کم ریٹ پربیچنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں مجبور شخص سے سستے داموں خریدنے کو ترجیح دی