کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 178
’’انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور ہر بیع مبرور۔‘‘ یعنی بہترین پیشہ وہ ہے جس میں انسان کو اپنے ہاتھ سے محنت کرنا پڑے یا پھر ایسی تجارت جس میں امانت ودیانت کی روح کار فرما ہو۔ ثابت ہوا کہ تجارت بابرکت ذریعہ معاش ہے، تاہم اس میں دنیا ہی مد نظر نہیں ہونی چاہیے بلکہ آخرت کی فلاح بھی مطلوب ہے اس لیے یہ شریعت کے تابع ہونی چاہیے۔ جوخرید وفروخت شریعت کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کو ملحوظ رکھ کر کی جائے، اس کو ’بیع مبرور‘ کہتے ہیں ۔یہ حدیث بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام ہماری معاشی سر گرمیوں کو ایک نظم و نسق کے تحت دیکھنا چاہتا ہے ۔ خرید وفروخت کے متعلق بنیادی ہدایات خرید وفروخت کا جومعاملہ بھی ہو، اس میں تین چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں : 1. معاملہ کرنے والے فریقین 2. وہ چیز جس کا سودا کیا جا رہا ہو 3. چیز کی قیمت شریعت ِمطہرہ نے ہر ایک کے لیے الگ الگ ہدایات دی ہیں : فریقین کے لیے ہدایات 1. معاملہ باہمی رضامندی سے طے پانا چاہیے بیع کی شرطِ اوّل یہ ہے کہ فریقین کا نہ صرف ذہنی توازن درست ہو اور وہ معاملات کی سوجھ بوجھ رکھتے ہوں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سودے پریکساں طور پر رضامندہوں ۔ چنانچہ لین دین کے وہ تمام معاملات جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہ پائی جاتی ہو ناجائز ہیں ۔اِرشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یٰاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَاْکُلُوا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا اَنْ تَکُونَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ وَلَا تَقْتُلُوا اَنْفُسَکُمْ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا﴾ (النساء :۲۹) ’’اے ایمان والو !ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ سے نہ کھاؤمگر یہ کہ تجارت ہو تمہاری باہمی