کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 177
مسلمان احتیاط کے پیش نظر دورانِ حج تجارت سے اجتناب کرتے تھے ۔اللہ تعالیٰ نے ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے یہ آیت ناز ل فرمائی۔ ربّ کے فضل سے مراد یہاں تجارت اور کاروبار ہے یعنی دورانِ حج مالی، تجارتی اور معاشی فوائد حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ کا فضل تلاش کرنے کے مترادف ہے بشرط کہ حج کے مناسک متاثر نہ ہوں ۔
ایک اور جگہ نمازِ جمعہ کے بعد تجارت کرنے کی ہدایت دی گئی ہے:
﴿فَإِذَا قُضِیَتِ الصَّلَاۃُ فَانْتَشِرُوا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ﴾ (الجمعہ :۱۰)
’’پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤاور اللہ کا فضل تلاش کرواور اللہ کو بکثرت یاد کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔‘‘
یہاں بھی ’اللہ کا فضل تلاش کرو‘ سے مراد کسب ِمال ہے جس میں خرید وفروخت بھی شامل ہے۔ گویا تجارت محض دنیاوی کام نہیں جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں بلکہ یہ اللہ کا فضل تلاش کرنے کے مترادف ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اگر کاروبار میں اسلامی احکام کو ملحوظ رکھا جائے تو یہ کاروبار بھی اللہ کے قرب کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ قرآنِ حکیم میں دوسرے مقامات پر بھی تجارت اور مال کو اللہ کے فضل سے تعبیر کیا گیا ہے۔
سید الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت سے قبل خود بھی تجارت کی اورصحابہ کو بھی اس کی ترغیب دیتے، چنانچہ اکثر و بیشتر صحابہ کرام تجارت ہی کرتے تھے۔احادیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تجارت کو بہت معزز پیشہ قرار دیا گیا اور دیانت دار تاجر کا بڑا مرتبہ تسلیم کیا گیا ہے ۔ایک حدیث میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے سچے اور دیانتدار تاجر کو جنت میں انبیا، صدیقین اور شہدا کی رفاقت کی بشارت سنائی ہے :
(( التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الأَمِینُ مَعَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَائِ))
’’راست باز اور امانت دار تاجر انبیا ، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہو گا۔‘‘ (سنن ترمذی:۱۲۰۹، باب ما جاء في التجار وقال: ہٰذا حدیث حسن)
ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاگیا کہ کسب ِمعاش کا بہترین اور باعث برکت ذریعہ کونسا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( عَمَلُ الرَّجُلِ بِیَدِہٖ وَکُلُّ بَیْعٍ مَبْرُور)) (مسنداحمد :۱۷۷۲۸)