کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 176
ضروریات کے لیے ہر آن دوسروں کا محتاج ہے۔ جب ہر شخص کی ضرورتیں دوسروں کے ساتھ بندھی ہوئی ہیں تو پھر خرید وفروخت کے معاملات نا گزیر ہیں ۔ اگر خرید و فروخت کا سلسلہ نہ ہوتاتونظامِ حیات درہم برہم ہوجاتا،انسانیت اضطراب اور بے چینی میں مبتلا ہوجاتی اور انسان ضروریاتِ زندگی کے حصول کے لیے یا توچوری اور لوٹ مار کا سہارا لیتا جس سے نہ صرف لوگوں کے اَموال خطرات میں پڑ جاتے بلکہ خونریزی کا بازار بھی گرم ہوتا یا دوسروں کے سامنے دست ِسوال دراز کرنے پر مجبور ہوتا جو کہ باعث ِذلت ہے اور بسا اوقات مالک معاوضہ کے بغیر دینے پر آمادہ بھی نہیں ہوتا، لہٰذا اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر یہ خاص لطف وکرم فرمایا کہ اُنہیں اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے نہ صرف خرید وفروخت کی اجازت مرحمت فرمائی بلکہ اس کے متعلق احکام و ہدایات دے کر ثواب اور اپنے قرب کا ذریعہ بنا دیا ہے ۔ تجارت کی فضیلت ایک دوسرے کے ساتھ اشیا کا تبادلہ چونکہ انسانی معاشرہ کی بنیادی ضرورت ہے، اس لیے قرآنِ حکیم اور احادیث ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بڑے شوق آفرین انداز میں خرید وفروخت کے ذریعے کسب مال کی ترغیب دی گئی ہے۔ قرآنِ حکیم نے متعدد مقامات پرتجارت کے ذریعے حاصل ہونے والے فوائد کو اللہ کا فضل قرار دیا ہے۔ حج کے معاشی اور تجارتی پہلو کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّنْ رَبِّکُمْ فَإِذَا اَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْکُرُوہُ کَمَا ہَدٰکُمْ وَإِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہِ لَمِنَ الضَّالِّینَ﴾ (البقرۃ:۱۹۸) ’’تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم (تجارت کے ذریعے) اپنے ربّ کا فضل تلاش کرو۔پھر جب تم عرفات سے واپس آؤتو مشعر حرام (مزدلفہ میں ایک پہاڑی)کے پاس اللہ کو یاد کرو۔اور اس کو اس طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں ہدایت کی ہے بلاشبہ اس سے پہلے تم نا واقف تھے۔‘‘ حج کے دنوں میں جب سارے عرب سے لوگ مکہ مکرمہ میں حاضر ہوتے تو بازار مالِ تجارت سے بھر جا تے اور خرید و فروخت کاتانتا بندھا رہتاجیسا کہ آج کل بھی ہوتا ہے۔ بعض