کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 175
کی بولی زیادہ ہو گی اس کے ساتھ بیع منعقد ہو جائے گی۔
اس کے مقابلے میں ٹینڈر (مُناقَصَة) پر خریداری ہے جس میں خریدار یہ کہتا ہے کہ مجھے فلاں چیز کی ضرورت ہے جو کم قیمت پر مہیا کرے گا، میں اس سے لوں گا۔ یہ جدید صورت ہے جس کا قدیم فقہی ذخیرہ میں تذکرہ نہیں ملتا، تاہم اس کا بھی وہی حکم ہے جو نیلام کا ہے۔
3. مُرابَحۃ: مرابحہ سے مراد ہے کہ فروخت کنندہ کوئی چیز اس وضاحت کے ساتھ بیچے کہ اس پر میری یہ لاگت آئی ہے اور اب میں اتنے منافع کے ساتھ فلاں قیمت پر آپ کو بیچتا ہوں ۔ مرابحہ کا معنی ہے:’نفع پر بیچنا‘ مرابحہ میں قیمت نقد بھی ہو سکتی ہے اور اُدھار بھی ۔ فروخت کنندہ کی جانب سے مشتری کو اپنی لاگت اور اس میں شامل منافع سے آگاہ کرنا ہی وہ نکتہ ہے جو مرابحہ کو مساومہ سے الگ کرتاہے۔
4. تَوْلِیَۃ: جب فروخت کنندہ کوئی چیزنفع و نقصان کے بغیر لاگت قیمت پر ہی فروخت کرے تو اس کو بیع تَوْلِیَہ کہتے ہیں ۔تولیہ کا لغوی معنی ہے:والی بنانا، فروخت کنندہ چونکہ نفع حاصل کئے بغیرہی خریدار کو چیز کا مالک بنا دیتا ہے، اسلئے اس کو تولیہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔
5. وَضْعِیَّۃ: وضعیہ کا معنی ہے قیمت ِخرید سے کم پر بیچنا ،یعنی خسارے کا سودا ۔
آخری تین قسمو ں میں چونکہ فروخت کنندہ اپنی قیمت ِخرید یا لاگت بتا کر سودا کرتا ہے اور خریدار اس پر اعتماد کرتا ہے، اس لیے ان کو بُیُوْعُ الْاَمانَةِ امانت داری پر مبنی بیوع کا نام دیا جاتا ہے۔
خرید وفروخت کی اجازت کا فلسفہ
یہ بات مسلم ہے کہ خرید وفروخت ہمیشہ سے انسانی زندگی کا لازمی حصہ رہا ہے، اس لیے کہ یہ انسا ن کی فطری ضرورت ہے جس کے بغیر اس کی ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں کیونکہ دنیا میں ہر شخص کسی نہ کسی لحاظ سے دوسروں کا دست نگر ہے، یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے استعمال کی تمام اشیا خود ہی پیدا یا تیار کرلے۔ مثلاً ایک شخص کسان ہے جو اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے خود ہی کھیتی باڑی کرتاہے مگر زرعی آلات، لباس ا و ررہائش کے سلسلے میں وہ دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے: الإنسان مدني بالطبع انسان اپنی حاجات و