کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 172
یہ حقیقت ہے کہ اکثر و بیشتر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تجارت پیشہ تھے اور ان کی تمام کاروباری سرگرمیاں شریعت کے تابع ہی ہوتی تھیں مگر اس کے باوجود اُنہوں نے معاشی میدان میں بے مثال ترقی کی، ہر طرف مال و دولت کی فروانی، آسودگی اور خوش حالی عام تھی اور وسیع اسلامی مملکت میں کوئی زکوٰۃ قبول کرنے والا نہ ملتا تھا۔ معاشی اعتبار سے کمزور ترین افرادبھی زکوٰۃ ادا کرنے کے قابل ہو گئے تھے جو اس بات کابین ثبوت ہے کہ معاشی ترقی کے لیے بے قید آزادی ناگزیر نہیں بلکہ یہ مقصد حدود وقیود کے اندر رہ کر بھی بخو بی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ لین دین کے وہ کونسے احکام ہیں جو شریعت کی رو سے لازمی اور واجب التعمیل ہیں ،ذیل میں اس کی تفصیل پیش خدمت ہے : بیع کا تعارف مناسب ہوگا کہ خرید وفروخت کے متعلق احکامِ شرعیہ بیان کرنے سے قبل بیع کا مفہوم واضح کر دیا جا ئے کیو نکہ کتب ِحدیث میں لین دین کے معاملات اور ان سے متعلقہ احکام بالعموم کتاب البیُوع کے تحت ذکرہوتے ہیں ، قرآن نے بھی ان معاملات کے لیے یہی اصطلاح استعمال کی ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں بھی خرید وفروخت کے معاہدے بیع نامہ کے نام سے ہی تحریرہوتے ہیں ۔ بیع کا معروف معنی ہے: بیچنا لیکن یہ خریدنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمانۂ قدیم میں اشیا کا لین دین اشیا کے بدلے ہی ہوتا تھا یعنی بارٹر سسٹم رائج تھا، اس طریقہ میں ہر شخص گویا فروخت کنندہ بھی ہوتا تھا اور خریدار بھی، اس سے بیع کے لفظ میں دونوں معنی پیداہو گئے۔ علمائے شریعت کے نزدیک لین دین کے وہ تمام معاملات جو کسی معاوضہ کی اساس پر طے پاتے ہیں ،بیع کہلاتے ہیں اس لیے بیع کا شرعی مفہوم یوں بیان کیا جاتاہے : والبیع نقل ملک إلی الغیر بثمن (فتح الباری:ج۴/ص۳۶۴) ’’بیع کا معنی ہے قیمت کے عوض چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا۔‘‘ ملکیت کی منتقلی تو سودی معاملات میں بھی ہوتی ہے مگر ان کو بیع نہیں کہا جاتا۔ایسے ہی