کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 171
ان احکام سے واقف نہ ہوں جو اسلام نے تجارت کے سلسلے میں دیئے ہیں ،چنانچہ خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کا فرمان ہے : لَا یَبعْ فِی سُوقِنَا إلاَّ مَنْ تَفَقَّہَ فِي الدِّیْنِ (جامع ترمذی:۴۸۷،أبواب الوتر،باب ما جاء في فضل الصلاۃ علی النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ) ’’ہمارے بازار وں میں وہی خرید وفروخت کرے جسے دین (تجارتی احکام )کی سمجھ ہو۔‘‘ تیرھویں صدی ہجری کے مالکی فقیہ مَحْمَد بن احمدالرہونی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۱۲۳۰ھ)نے اپنے شیخ ابو محمد رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے نقل کیا ہے : ’’کہ اُنہوں نے مراکش میں محتسب کو بازاروں میں گشت کرتے دیکھا، جوہر دکان کے پاس ٹھہرتااور دکان دارسے اس کے سامان سے متعلق لازمی احکام کے بارہ میں پوچھتااور یہ دریافت کرتاکہ ان میں سود کب شامل ہوتا ہے اور وہ اس سے کیسے محفوظ رہتا ہے؟ اگر وہ صحیح جواب دیتاتو اس کو دکان میں رہنے دیتا اور اگر اسے علم نہ ہوتاتو اسے دکان سے نکال دیتا اور کہتا تیرے لیے مسلمانوں کے بازار میں بیٹھنا ممکن نہیں تو لوگوں کو سود اور ناجائز کھلائے گا۔‘‘ (أوضح المسالک بحوالہ بحوث فقهية في قضایا اقتصادية معاصرۃ ج۱/ ۱۴۵) اسلامی تعلیمات سے نا آشنا بعض حلقے یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ معیشت و تجارت کے بارہ میں اسلامی احکام پر عمل کر نے سے ہمارا سار اکاروبار ٹھپ ہو جائے گا اور ہم معاشی اعتبارسے بہت پیچھے رہ جائیں گے ، مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ حقیقی اور دیرپا ترقی کے لیے تجارتی سرگرمیوں کو مناسب اُصول و ضوابط کے دائرہ میں رکھنا انتہائی ضروری ہے۔حقیقت پسندماہرین کے نزدیک موجودہ معاشی بحران کا بنیادی سبب معاشی سرگرمیوں کا اخلاقی قیود اور پابندیوں سے مستثنیٰ ہونا ہے اور مارکیٹ کو اخلاقی ضوابط کا پابند بناکر معیشت میں بہتری پیدا کی جاسکتی ہے۔ اور اگر یہ ناقدین اسلام کے تجارتی احکام کاحقیقت پسندی سے جائزہ لیں توخودگواہی دیں گے کہ اسلامی طریقۂ تجارت میں شتر بے مہار آزادی، ہوس، مفاد پرستی اور خود غرضی کو کنٹرول کرنے کاشاندار میکانزم موجود ہے اوریہی وہ خرابیاں ہیں جو معاشرے کے اجتماعی مفادات پر اثر انداز ہوتی ہیں اورمعاشی بے اعتدالیوں اور نا ہمواریوں کاباعث بنتی ہیں ۔