کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 169
تھے۔ اس کے باوجود علمی و فنی صلاحیت کی بنیاد پر علما و ماہرین کو شاہی دربار میں عزت و مرتبہ حاصل ہوجاتا تھا۔ جن سے بادشاہ اُن کی صلاحیتوں کو مدنظر رکھ کر مشورہ کرکے اُمور سلطنت سرانجام دیتے تھے۔لیکن موجودہ دور کے جمہوری نظام میں قوت، سرمایہ اور جاگیر کے بل بوتے پر سرمایہ دار اور جاگیردار ہی منتخب ہوتے ہیں ۔ علماء ، دانشور اور فنی ماہرین جمہوری کھیل سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں ۔اور جو حصہ لیتے ہیں اُن میں سے اکثر عوامی مذہب کے عوامی علماء بن کررہ جاتے ہیں ۔ تقویٰ و صلاحیت معروف شے ہے! روز مرہ زندگی کا مشاہدہ ہے کہ حکومت کے کسی محکمہ میں خالی آسامی ہو تو تعیناتی کے لیے اُمیدواروں کے مابین الیکشن نہیں کرائے جاتے بلکہ اُن کی تعلیمی قابلیت و پیشہ وارانہ مہارت دیکھ کر بھرتی کیا جاتاہے۔ ڈاکٹر کی آسامی پُر کرنے کے لیے صرف ایم بی بی ایس ڈگری ہولڈر سے انٹرویولیاجاتاہے۔ جبکہ ایل ایل بی کی ڈگری کی بنیاد پر درخواست دینے والے امیدوار کی درخواست داخل دفتر ہوجاتی ہے۔ سفر و حضر میں امام مقرر کرنا ہو تو نہ کوئی اپنا نام پیش کرتا ہے، نہ ہی حاضرین کے مابین ووٹنگ ہوتی ہے بلکہ اہلیت کو معیار بناکر کسی ایک کو ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے۔ پنچایتی مقدمہ میں قسم صفائی کے لیے کچھ ناموں کوردّ کرکے چند ناموں پرمدعی اور مدعا علیہ کسی طرح اتفاق کرلیتے ہیں ، اس لیے کہ اُن کی دیانت، صداقت اور زہد تقویٰ معاشرہ میں معروف ہوتا ہے۔ ملک کے دیگر شعبوں میں تعیناتی کے لیے تعلیمی و پیشہ وارانہ صلاحیت مدنظر رکھ کر اہل افراد کو تعینات کیا جاتاہے۔ جنہوں نے صرف طے شدہ قانونی ضابطوں پرعمل درآمد کرنا ہوتا ہے لیکن وہ ادارہ جس کے ذمہ قرآن و سنت کے ضابطوں کو لاگو کرنے کے لیے حالاتِ حاضرہ کے تحت طریقہ کار وضع کرنا ہے۔ اس ادارہ کے اراکین کے لیے دینی و دنیوی تعلیم اور فنی صلاحیت کا کوئی معیار ملحوظ نہیں رکھا جاتا بلکہ اس کے انتخاب کے لیے کثرتِ رائے پر عمل کیا جاتاہے، یہ عجب تماشا ہے۔ جبکہ مجلس شوریٰ اسلامی تعلیم و تزکیہ کے علاوہ فنی و اقتصادی ماہرین پر مشتمل تشکیل دی جاسکتی ہے کیونکہ زندگی کے ہر شعبہ میں کچھ لوگ اپنے تقویٰ و صلاحیت کے لحاظ سے معروف ہوتے ہیں ۔