کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 168
جمہوری چمپئن اعتراض کرتے ہیں کہ ووٹنگ کے بغیر انتخابات مکمل نہیں ہوتے اور ملکی اُمور طے نہیں پاسکتے، یہ سراسر پراپیگنڈہ مہم ہے۔اسلامی حکومت کے ارکانِ شوریٰ باہمی مشورہ سے پیش آمدہ مسائل حل کرتے ہیں ۔ چونکہ مشورہ مقدس امانت، شہادت ہے جس کی اہلیت کے لیے ایمان، تقویٰ کا معیار موجود ہے کہ وہ امین، اہل ذکر (عالم باعمل) اور تحقیق کرنے والا ہو: ’’شوریٰ کا مطلب رائے کو پختہ کرنا ہوتاہے۔ شہد کی مکھیاں جوشہد بناتی ہیں ، اس عمل کو عربی میں شوریٰ کہتے ہیں ۔ جس طرح وہ مختلف پھلوں اور پھولوں سے رس لے کرشہد تیارکرتی ہیں اسی طرح مسلمان اہل شوریٰ بیٹھ کرمختلف تجاویز دیں گے۔ وہ تمام تجاویز پختہ ہوتی چلی جائیں گی،چونکہ ہرشخص کے دل میں ملت کا درد ہوگا، وہ خلوص سے اختلاف بھی کرے گا اور اتفاق بھی بالآخر مسئلہ حل کرہی لیا جائے گا۔‘‘ خلفاے راشدین کے تقرر کے واقعات کی تاریخ پرنظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے کسی کا تقرر عام بالغ رائے دہی کی بنیاد پرنہیں ہوا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے تقرر میں صرف وہی حضرات شریک ہوئے جو سقیفہ بنی ساعدہ میں موجود تھے، پورے ملک کے بالغ افراد تو کجا مدینہ منورہ کے بالغ افراد بھی اس رائے میں شریک نہ تھے۔ دوسرے دن مسجد ِنبوی میں بیعت عام کرکے مسلمانوں نے اطاعت کا اظہار کیا۔مزید تفصیل کے لئے اسی موضوع پر میرا مضمون محدث کے شمارۂ جون ۲۰۰۹ء میں ملاحظہ کیجئے۔ اکثریت کا دعویٰ فراڈ ہے! جمہوریت میں اکثریت حکومت کرتی ہے۔ یہ دعویٰ ایک فراڈ ہے۔ آپ اپنے انتخابی حلقہ کے کل ووٹ اور امیدواروں میں سے جیتنے والے امیدوار کے حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب مدنظر رکھیں تو آپ پر حقیقت واضح ہوجائے گی کہ ارکان اسمبلی کو آبادی کی اقلیت منتخب کرتی ہے۔ بظاہرعوام کی حکومت اور آزادی کا ڈھونگ ہے، عملی طور پر لاکھوں کی تعداد میں عوام کو پارلیمنٹ کے مخصوص افراد کی رائے کا پابند بنا دیا جاتاہے۔ پھر پارلیمنٹ میں سے چند افراد کابینہ میں شامل ہوکر پورے ملک پر حکومت کرتے ہیں ۔ شاہی دربار میں عسکری قوت کے بل بوتے پر ریاستی امرا بھی درباری مراتب حاصل کرتے