کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 167
خفیہ بالغ رائے دہی سے منافقت کے جراثیم جنم لیتے ہیں قرونِ اولیٰ کے دور میں خفیہ بالغ رائے دہی کا تصور تک نہ تھا۔ تاریخ اسلام کی ورق گردانی سے پتہ چلتا ہے کہ اہل حل و عقد کے مشورہ سے نامزدگی ہوتی۔ بعدازاں مسجد میں بیعت ِعام ہوتی جس میں سب حصہ لیتے۔خلفاے راشدین کا تقرر اس کا بین ثبوت ہے۔ اگر کسی نے خلیفہ کی نامزدگی پر اختلاف کیا تو اس نے علانیہ بیعت کرنے سے انکار کردیا۔ خفیہ بالغ رائے دہی سے اُمت ِمسلمہ میں منافقت کے جراثیم جنم لیتے ہیں ۔ وہ بزدل ہوکر باطل سے سمجھوتہ کرنے پر آمادہ ہوجاتی ہے۔ الیکشن کے دوران انتخابی حلقہ میں کئی امیدواروں کے مابین مقابلہ ہوتا ہے۔ ہر اُمیدوار حمایت کے لیے ووٹروں کے دروازے پردستک دیتا ہے۔ علاقے میں نمائشی خدمات کا تذکرہ کرتا ہے اور جلسوں میں عوامی مطالبہ پرسماجی و رفاہی اداروں کے اجرا کے وعدے کرتا ہے۔ جب کامیاب ہوتا ہے تو اپنے بلندبانگ دعوؤں کو فراموش کردیتا ہے۔ دوسری جانب عموماً ووٹر بھی خفیہ بالغ رائے دہی کے تحت اخلاق یجرائم کا ارتکاب کرتاہے۔ہراُمیدوار سے وہ ووٹ دینے کا وعدہ کرتاہے ۔ کہیں تو اسے برادری، رشتہ داری کی مجبوری ہوتی ہے اور کہیں اُسے سرمایہ دار، جاگیردار، وڈیروں کاخوف لاحق ہوتا ہے کہ کہیں اُس کی جان و مال کے دشمن نہ بن جائیں یا اُسے زمین سے بے دخلی کا پروانہ نہ تھما دیں ۔ اس طرح ایک ووٹر ایک اُمیدوار کو ووٹ دے کر دوسرے اُمیدواروں سے وعدہ خلافی کرتا ہے۔ خفیہ رائے دہی سے فائدہ اُٹھا کر دوسرے امیدواروں کے سامنے جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ انتخابی حلقوں میں جو اُمیدوار سامنے آتے ہیں ، وہ عموماً تقویٰ، اہلیت کے اعتبار سے اپنے حلقے کی امارت کے حق دار نہیں ہوتے تو ووٹر ان نااہل امیدواروں میں سے کسی ایک کو ووٹ دے کر منافق کی تیسری علامت امانت میں خیانت کا ارتکاب کرتا ہے۔ جبکہ بیعت عام (Show Hand) سے مسلمانوں میں اسلاف کے جوہر صدق، ایفائے عہد اور امانت کے علاوہ حق کی خاطر باطل سے ٹکرانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی جذبہ جہاد کو یہود نے خفیہ بالغ رائے دہی سے مدہم کرنے کی کوشش کی ہے۔