کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 166
پیش کیا۔ قاضی شریح رضی اللہ عنہ نے مقدمہ اس بناپر خارج کردیاکہ ایک گواہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ وقت کابیٹا تھا اوردوسرا گواہ قنبر رضی اللہ عنہ آپ کاغلام تھا۔ یہودی نظامِ عدل سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگیا اور چوری کے جرم کا اقرار کرکے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صداقت کااعتراف بھی کرلیا۔ نظامِ خلافت ظالم کو ظلم سے روکنے اور مظلوم کاساتھ دینے کا حکم دیتا ہے۔ آج کے جمہوری دور میں اس قسم کے عدالتی نظام کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ بندوں کو گناکرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے جمہوری نظام میں حق بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہر شہری کے ووٹ کی قدروقیمت یکساں ہے۔ اس نظام کے تحت جھوٹا اور سچا، فاسق اور مؤمن، بنیا اور نابینا، بے نماز اور متقی، جاہل اور شیخ الحدیث، اَن پڑھ اور پی ایچ ڈی، چور ڈاکو، زانی، قاتل اور عدلیہ کے جج کی رائے کی اہمیت برابر ہے۔ جمہوری نظام میں رائے کو پرکھنے کی بجائے رائے کو شمارکیا جاتا ہے جس کو عقل سلیم بھی تسلیم کرنے سے عاجز ہے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس نکتہ کو یوں بیان فرمایا: جمہوریت ایک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے اسلام میں مساوات کا یہ تو اُصول موجود ہے کہ اسلام میں داخل ہوکر رنگ ونسل، دولت، عہدہ، زمین اور جائیداد کے امتیاز ختم ہوجاتے ہیں اورسب ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ پڑھتے ہیں ۔اسلامی حکومت میں کسی مسلمان کو کسی یہودی، عیسائی یا ہندو کی عزت، جان و مال سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر جرم کرے گا تو اس کو اسی طرح سزا ملے گی جس طرح کسی غیرمسلم کو مسلمان پر ظلم کرنے کی سزا موجود ہے۔تاہم فہم و فراست کے لحاظ سے سب کے مساوی ہونے کا قائل نہیں ۔ قرآنِ حکیم میں واضح ارشاد ہے: ’’یعنی کہہ دیجئے کیا عالم اور جاہل برابر ہوسکتے ہیں ۔‘‘ (الزمر:۹) ’’کیا اندھا اور آنکھ والا برابر ہوسکتے ہیں ۔‘‘ (الانعام:۵۰) ’’کیاوہ(جو انصاف کا حکم نہیں دیتا اور سیدھے راستہ پرنہیں چلتا) اور وہ جو انصاف کا حکم دیتاہے اور سیدھے راستہ پر چلے، دونوں برابر ہوسکتے ہیں ۔‘‘ (النحل:۷۶) ہرگز برابر نہیں ہوسکتے تو اُن کی رائے کو یکساں اہمیت کیسے حاصل ہوسکتی ہے!!