کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 165
چنانچہ جمہوری نظام کی تعریف:’’عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کے لئے۔‘‘ کا ہر پہلو اسلام سے متصادم ہے۔لنکن کی جمہوریت کی تعریف کے مدمقابل خلافت ِاسلامیہ کی جامع تعریف پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں :
A Government of the Allah, for the Piece and Justice by the Quran and Sunnah.
’’اللہ کی حکومت …امن و انصاف کے لیے… قرآن و سنت کے ذریعے‘‘
جمہوری الیکشن کے دوران نمائندگان کے لیے اہلیت و قابلیت کی شرائط دفن ہوجاتی ہیں ۔ سرمایہ دار و جاگیردار طبقہ دھن دھونس دھاندلی کی بنیاد پر منتخب ہوتے ہیں ۔برسراقتدار جماعت کے نمائندے اپنے علاقے کے سیاہ و سفید کے مالک بن جاتے ہیں ۔ مقامی سطح سے لے کر مرکزی سطح تک تمام محکمے ان کے زیرسایہ ہوجاتے ہیں ۔ وہ اپنی پارٹی مضبوط کرنے کے لیے اپنے ووٹروں کا ہر جائزو ناجائز کام ان سے لیتے ہیں ۔ حکم عدولی کی صورت میں معطل یا تبادلے تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔
عدالتوں میں خود ساختہ قانون نافذ ہے۔ جہاں مقدمے کی سماعت اور حتمی فیصلے تک طویل عرصہ گزر جاتا ہے۔مظلوم عدالتوں کا چکر لگا کر تھک جاتاہے۔ بعض وکیل حق کی نشاندہی ہوجانے کے باوجود جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کے لیے عدل و انصاف کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں ۔ مظلوم جب عدالتی کارروائیوں سے مایوس ہوجاتا ہے تو وہ اپنی برسراقتدار پارٹی کے دور میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر مخالفین سے انتقام لیتاہے۔ اگر مدعی و مدعاعلیہ ایک ہی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں تو سیاسی لیڈر صلح کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ بالفرض مظلوم مخالف سیاسی جماعت سے وابستہ ہو تو سیاسی دباؤڈال کر ظالم کو قانون کی نظروں میں بے گناہ ثابت کراکر دم لیتے ہیں ۔گویا جمہوری نظام عدل و انصاف کی راہ میں آہنی دیوار ہے۔
جبکہ اسلامی نظام حکومت میں امیرغریب، مسلم و غیر مسلم کاامتیاز نہیں برتا جاتا۔یہودی اورنومسلم کامقدمہ عدالت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش ہواتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دلائل سن کر یہودی کے حق میں فیصلہ کیا جس سے متاثر ہوکر وہ مسلمان ہوگیا۔
خلیفہ وقت حضرت علی حیدرکرار رضی اللہ عنہ نے یہودی کے خلاف زرہ کی چوری کامقدمہ عدالت میں