کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 163
دلیل معیارِ حق ہے ۔موجودہ جمہوری دور کی کثرتِ رائے کو کیا اتھارٹی حاصل ہے کہ آئی ایم ایف کے معاہدوں کا بہانہ بنا کر سود کو حرام قرار دینے میں مہلت طلب کریں ۔ زانی کوسنگسار کرنے کے لیے اسلامی معاشرہ کی بحالی کابہانہ بنائیں ، اور چور کے ہاتھ کاٹنے کے لیے معاشرہ میں غربت کا رونا روئیں ۔اگر ’عوام کے ذریعے‘ سے یہ اخذ کیا جائے کہ عوام نے ووٹ دے کر اُسے منتخب کیا، تب اُسے اقتدار کی کرسی ملی تو یہ نظریہ باطل ہے۔کیونکہ اسلام میں اقتدار کا سرچشمہ ربّ ذوالجلال ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے: (اے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم !) کہہ اے میرے اللہ، سارے ملک کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہ بنا دے اور جس سے چاہے بادشاہت چھین لے اور تو جس کو چاہے عزت دے اور تو جس کو چاہے ذلت دے۔ ساری بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے،بے شک تو سب کچھ کرسکتا ہے۔‘‘ (آلِ عمران:۲۶) جمہوری نظام میں اقتدار کی خاطر دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں ۔ تائیدی سر ٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے وائٹ ہاؤس کا طواف کرنا پڑتا ہے جبکہ اسلام میں اقتدار کی طلب حرام ہے۔ تاریخ میں بے شمار مثالیں موجودہیں کہ قادرِ مطلق اس کو حکومت دے دے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو۔جب منافقت کی سزا دینے پر آئے تو وہی قدیر قہار بن کر اُسے رہتی دنیا تک عبرت کا نشان بنا دے۔ ایسے موقع پر فوج ظفر موج بھی عاجز ہوجائے ، بھاری مینڈیٹ بھی کچھ کام نہ آئے، بے شک اللہ ہر کام پر قادر ہے!! عوام کے لیے یا امن و انصاف کے لئے؟ جمہوری حکومت کی سب سے بڑی خوبی یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ عوام کی خدمت کے لیے ہمہ وقت سرگرم عمل رہتی ہے۔ عوامی فلاح و بہبود کی خاطر ہرگاؤں میں تعلیمی ادارے اور صحت کے مرکز قائم کرتی ہے۔ آمدورفت کے لیے سڑکوں ، شاہراہوں کاانتظام کرتی ہے۔ پینے کے لیے پانی اور نکاسی کے لیے نالیوں کا بندوبست کرتی ہے۔ جس کی پبلک لیول پرتشہیر کی جاتی ہے تاکہ عوام راضی ہوجائیں اور آئندہ الیکشن میں ووٹ دے کر اُسے کامیاب کریں ۔ اسلام میں اس طرح ریاکاری کی خدمت ہلاکت کا موجب بنتی ہے۔