کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 162
روانہ کروں گا۔‘‘ (طبری: جلد۳/ ص۲۲۰ بحوالہ خلافت و جمہوریت) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مقدم سمجھ کر لشکر روانہ کیا جو فتح یاب ہوکر واپس آیا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے مہاجرین و انصار کو جمع کرکے مانعینِ زکوٰۃ کے بارے مشورہ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اے خلیفہ رسول! میری رائے تو یہ ہے کہ آپ اس وقت عرب سے نماز ادا کرنے ہی کو غنیمت سمجھیں اور زکوٰۃ چھوڑنے پر مؤاخذہ نہ کریں ۔ یہ لوگ ابھی ابھی اسلام میں داخل ہوئے ہیں ۔ آہستہ آہستہ تمام اسلامی فرائض و احکام تسلیم کرکے سچے مسلمان بن جائیں گے۔ اللہ اسلام کو قوت دے دے گا تو ہم ان کے مقابلے پر قادر ہوجائیں گے، لیکن اس وقت تو مہاجرین و انصار میں تمام عرب و عجم کے مقابلے کی سکت نہیں ۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے سن کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور تمام مہاجرین و انصار اس رائے کے حق میں یک زبان ہوگئے۔ تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں اس شخص سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا۔ اس لیے کہ زکوٰۃ مال کا حق ہے (جیسے نماز جسم کا) اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ مجھے ایک بکری کابچہ بھی نہ دیں گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے تو میں اس کی ادائیگی پر ان سے ضرور لڑوں گا۔‘‘ (صحیح بخاری:۱۴۰۰، صحیح مسلم:۲۰) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:اللہ کی قسم! اس کے بعد میں سمجھ گیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دل میں جو لڑائی کا ارادہ ہوا ہے، یہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں ڈالاہے اور میں پہچان گیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے حق ہے۔چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مانعین زکوٰۃ کے خلاف جہادکا عزمِ مصمم کرکے نکل کھڑے ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر گھوڑے کی باگ تھام لی اور فرمایا: اے خلیفہ رسول! آج میں آپ سے وہی بات کہتا ہوں جو آپ نے غزوۂ اُحد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہی تھی : ’’اپنی تلوار کو میان میں کیجئے اور ہمیں اپنی ہستی سے محروم نہ کیجئے۔ اللہ کی قسم! اگر آپ کے قتل کی مصیبت ہم پر پڑ گئی تو پھر آپ کے بعد اسلام کا نظام کبھی درست نہ ہوگا۔‘‘ (کنز جلد۳/ صفحہ ۱۴۳ بحوالہ خلافت و جمہوریت) ان واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثرتِ رائے کی بجائے قرآن و سنت کی