کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 161
کو مبعوث کرکے احسانِ عظیم فرمایا۔ حامل قرآن سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ملت ِاسلامیہ کے لیے قانون ہے۔ جس میں ترمیم کرنے کا اختیار کسی کونہیں جبکہ اسلامی جمہوری ملک میں قرآن و سنت کے اٹل قانون کے نفاذ کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری لینی پڑتی ہے۔ معاشرہ میں عدل و انصاف قائم کرنے کے لیے قاتل سے قصاص لینے، چور کے ہاتھ کاٹنے اور زانی کوسنگسار کرنے کا حکم ہے۔ لیکن جمہوری ملک میں جب تک پارلیمنٹ کثرتِ رائے کی بنیاد پر ان قوانین کو منظور نہیں کرتی، اس وقت یہ حدود و قیود اسلامی جمہوری ملک میں لاگو نہیں ہوسکتیں ۔ چنانچہ ایسی حکومت جو اللہ کے نازل کردہ احکام کو نافذ نہیں کرتی وہ حکومت خود کو اسلامی حکومت کہلوانے کی حق دار نہیں بلکہ قرآن میں واضح طور پر ارشاد ہے: ﴿وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَل اللّٰه فَاُولٰئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ … ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ … ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴾ (المائدۃ:۴۴تا۴۷) ’’جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں ، وہی کافر ہیں ، وہی ظالم ہیں اور وہی فاسق ہیں ۔‘‘ اگر مجلس شوریٰ کاآپس میں یا امیرکے ساتھ کسی قانون کے نفاذ کے طریقۂ کار میں اختلاف پیدا ہوجائے تو قرآن نے ایسے موقع پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پلٹ جانے کا حکم دیا ہے : ﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَيْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰه وَالرَّسُوْلِ﴾ (النساء :۵۹) جس طرح خلفاے راشدینؓ اپنے دورِ خلافت میں اس اُصول پرعمل کرتے رہے۔ امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بعض عرب قبائل مرتد ہونے لگے۔کچھ قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔ ان نازک حالات میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے شوریٰ سے جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کے متعلق مشورہ کیا۔ شوریٰ فوری طور پر لشکر کی روانگی کے خلاف تھی لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دوٹوک الفاظ میں فیصلہ دیا: ’’اُس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی جان ہے، اگرمجھے یہ یقین ہو کہ درندے آکر مجھے اُٹھا لے جائیں گے تو بھی میں اسامہ رضی اللہ عنہ کا لشکرضرور بھیجوں گا جیساکہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا اور اگر ان آبادیوں میں میرے سوا کوئی شخص بھی باقی نہ رہے تو بھی میں یہ لشکر ضرور