کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 142
میں پائی جاتی ہیں ۔ منکرین حدیث مغرب کی جن تاریخی شہادتوں پر اعتماد کرتے ہیں ، ان میں سے قوی سے قوی ذریعہ بھی ابن ماجہ، حاکم، بیہقی کی ضعیف سے ضعیف روایت کے مقابلہ میں بھی ہیچ ہے۔ لیکن بُرا ہو ذہنی غلامی کا، ستیاناس ہو دماغی مغلوبیت کا، بیڑہ غرق ہو فکری اسیری کا، جس کا واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ؎
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر!
ہمارے’مفکر قرآن‘ فرماتے ہیں کہ قتل ابناے بنی اسرائیل کو مقتول و مذبوح قرار دینے والی آیات میں ’جان سے مار ڈالنے‘ کامفہوم اس لیے قابل قبول نہیں کہ ’’اس وقت تک مصر کی قدیم تاریخ سے جس قدر پردے اُٹھے ہیں ، ان میں سے بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرنے کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیاہے، ممکن ہے جب تاریخ کے مزید اوراق سامنے آئیں تو ان میں اس کے متعلق کوئی ذکر ہو۔ کیایہ عجیب بات نہیں کہ قرآنی الفاظ کے قطعی مفہوم کونظر انداز کرکے مصر کی تاریخ پر سے مزید پردوں کے اُٹھنے کاانتظار کرتے کرتے وہ شخص مرگیا جواُٹھتے بیٹھتے قرآن قرآن کی رٹ لگائے رکھتا تھا اور قرآن کے اوّل و آخر سند ہونے کی دہائی دیا کرتاتھا۔ اب گویا حیاتِ پرویز ہی میں جب اثری تحقیقات میں سے کوئی ایسی شہادت مل جاتی جو ولادتِ موسیٰ علیہ السلام کے وقت اسرائیلی بچوں کو’جان سے مار ڈالنے‘ کا انکشاف کرڈالتی تو پھر’مفکر قرآن‘ ایک اور قلابازی کھاتے اور مفہوم قرآن از سر نو بدل کر کچھ اور ہوجاتا اورجب تک کوئی ایسی شہادت نہیں مل پاتی اس وقت تک ’پیروانِ دعوتِ قرآنی‘ پر لازم ہے کہ وہ ’مفکر قرآن‘ کے اندازاً بتائے ہوئے قیاسی معانی ہی کو سینے سے لگائے رکھیں ۔
تورات اور پرویز
اور یہ بھی کیا خوب کہا ہے کہ ’’اسرائیلی بچوں کو سچ مچ مار ڈالنے کا فرعونی حکم صرف تورات میں پایا جاتاہے مگر موجودہ تورات ’ساقط الاعتبار‘ ہے۔‘‘ یہاں ہمارے ’مفکر قرآن‘ کا یہ دو رُخا پَن بھی قابل غور ہے کہ اُنہوں نے جب اور جہاں چاہا تورات کے اُن واقعات کو بھی جو مطابقِ قرآن ہیں یہ کہہ کر رد کردیا کہ یہ واقعات تورات جیسی ساقط الاعتبار کتاب سے ماخوذ