کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 141
ان کی عورتوں کو زندہ رکھا کرتاتھا‘‘ فرعونیوں کے متعلق بھی قرآن صراحت سے بیان کرتاہے کہ ’’یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآئَ ھُمْ وَیَسْتَحْیُوْنَ نِسَائَ ُکمْ‘‘ (البقرۃ:۴۹)’’وہ تمہارے بچوں کو ذبح کیا کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کوزندہ رہنے دیا کرتے تھی۔‘‘ایک دوسرے مقام پر ’’یذبحون‘‘کی جگہ ’’یُقَتِّلُوْنَ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں یعنی ’’خوب قتل کیاکرتے تھے۔‘‘ الغرض قرآن کریم نے یذبحون کہا ہو یا یقتلون، دونوں کامعنی ’جان سے مار ڈالنا‘ ہی ہے۔ لیکن ہمارے ’مفکر قرآن‘ کو یہ حقیقی اور عام فہم مفہوم قابل قبول نہیں کیوں ؟ محض اس لیے کہ ابھی تک حجری اور اثری انکشافات نے اس معنی کی تصدیق نہیں کی۔ گویا اصلی قابل اعتماد ماخذ الفاظ کلام اللہ نہیں ہیں بلکہ تاریخی آثار اور انکشافاتِ آثارِ قدیمہ ہیں ۔لہٰذا قرآنی مفہوم ان ہی کی روشنی میں متعین کیاجائے گا یعنی قرآنی الفاظ کا مفہوم قطعی نہیں بلکہ تاریخی آثار و کتبات سے برآمد شدہ مفہوم ہی قطعی ہے۔ یہ رویہ مغرب کی انتہائی ذہنی غلامی کا غماز ہے۔
’مفکر قرآن‘ پڑھتے تو قرآن ہی رہے ہیں مگر سوچتے رہے ہیں تہذیب ِغالب کی تحقیقات کی روشنی میں ۔ آنکھیں تو اُن کی اپنی تھیں مگر دیکھتے رہے ہیں مغرب کے زاویۂ نگاہ سے۔ کان تو اُن کے اپنے ہی تھے، مگر سنتے رہے ہیں علماے مغرب کی سخن سازیاں ۔ الفاظ تو وہ قرآن ہی کے اپنی زبان سے ادا کرتے رہے ہیں مگر ان کے اندر معانی وہ فکر جدید سے لے کر داخل کیا کرتے تھے۔ زبان تو ان کی اپنی تھی،مگر بات غیروں ہی کی کیا کرتے تھے۔دماغ تو ان کا اپنا ہی تھا مگر اس میں سوچ اور فکر اَغیار ہی کی تھی: ﴿لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّایَفْقَھُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ أعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا اُوْلٰئِکَ کَالاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ﴾ (الاعراف:۱۷۹)
مزید برآں ہمارے ’مفکر قرآن‘ ہوں یا دیگر منکرینِ حدیث، اُن کی یہ بات کس قدر قابل توجہ ہے اورموجب ِصد حیرت ہے کہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ کے متعلق بخاری، مسلم، موطا اور دیگر کتب ِحدیث کی شہادتوں کو بلا تکلف ردّ کردیتے ہیں اور محققین مغرب کی آثارِ قدیمہ سے ماخوذ تاریخی شہادت کو قبول کرلیتے ہیں حالانکہ یہ تاریخی شہادتیں اُن شہادات کے مقابلہ میں کوئی وزن نہیں رکھتیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث