کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 140
بھی بچے پیداہوں ، ان میں سے لڑکوں کوپیدا ہوتے ہی قتل کردیاجائے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے۔یہ مفہوم صحیح نہیں ، اسے تورات سے لیا گیا ہے۔‘‘ (تفسیر مطالب الفرقان : ج۲ ص۱۷۳) ہمیں افسوس ہے کہ مقالہ کی تنگ دامنی نہ تو ہمیں اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ اقتباسِ بالا میں سوے تعبیر کے ذریعہ جو کرشمہ سازی کی گئی ہے، اس کاپردہ چاک کیاجائے اورنہ ہی اس بات کی کہ موقف ِ پرویز کے جملہ دلائل کاتفصیلی رد پیش کیا جائے اورنہ ہی اس امر کی کہ علماے سلف و خلف کے موقف کادلائل و براہین سے اثبات کیا جائے۔ ان جملہ اُمور پرتفصیلی بحث کے لیے میری کتاب ’تفسیر مطالب الفرقان کاعلمی اور تحقیقی جائزہ‘ کامطالعہ فرمائیے۔ یہاں موضوع کی مناسبت سے صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ’مفکر ِقرآن‘ کے ایمان بالقرآن کی حقیقت کیا ہے؟ انکارِ قتل ابناے بنی اسرائیل کی وجہ چنانچہ وہ جس وجہ سے قتلِ ابناے بنی اسرائیل کاانکارکرتے ہیں ، وہی اس امر کو واضح کردیتی ہے کہ وہ فی الواقع قرآن کومانتے ہیں یاغیرقرآن کو؟ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ ’’اس وقت تک مصر کی قدیم تاریخ سے جس قدر پردے اُٹھے ہیں ، ان میں سے بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کردینے کاکوئی واقعہ سامنے نہیں آیا ہے۔ ممکن ہے جب تاریخ کے مزید اوراق سامنے آئیں تو ان میں اس کے متعلق کوئی ذکر ہو، اس وقت تک صرف تورات میں یہ ملتا ہے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کو مارنے کاحکم دے رکھا تھا۔ (کتابِ خروج)لیکن تاریخی نقطۂ نگاہ سے موجودہ تورات کی جو حیثیت ہے وہ اربابِ علم سے پوشیدہ نہیں ہے۔‘‘ (لغات القرآن: ص۶۹۳،۶۹۴) ’مفکر ِقرآن‘ کی ذہنی غلامی اور فکری اسیری اقتباسِ بالا نے پرویز صاحب کی مغرب کے مقابلے میں ذہنی غلامی اور فکری اسیری کو بالکل بے نقاب کرکے رکھ دیاہے۔ قرآنِ کریم بالفاظِ صریحہ فرعون کے متعلق یہ کہتا ہے کہ یُذَبِّحُ اَبْنَائَ ہُمْ وَیَسْتَحْیِ نِسَائَ ہُمْ(القصص:۴) ’’وہ ان کے بیٹوں کو ذبح کیا کرتاتھا اور