کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 139
وحی کی تصدیق کردے گی۔‘‘ (مفہوم القرآن: ص۶۷۹)
یہ وہ اُصولی بات ہے جس کی وہ تلقین کیا کرتے تھے لیکن یہاں ان کااپنا طرزِعمل اس تلقین کے برعکس ہے کہ وہ اب وحی کی بیان کردہ عمر نوح علیہ السلام کو عقلاً مستبعد سمجھتے ہیں اور قیاسات کی بنا پر آیات کی رکیک تاویلات پرتُل جاتے ہیں اور قرآنی الفاظ میں عمر نوح علیہ السلام کے متعلق ایک نیا تصور داخل کرتے ہیں اور زبانِ حال سے یہ فرماتے ہیں کہ ’’ان قیاسی مفاہیم کو قبول کرلو یہاں تک کہ علمی تحقیقات عمر نوح علیہ السلام کے کسی قطعی مفہوم کو سامنے لے آئیں ۔رہاقرآنِ کریم کابیان کردہ مفہوم تو وہ ’غیر واضح‘ ہے۔‘‘
اب ظاہر ہے کہ یہ طرزِ عمل وہی شخص اختیارکرسکتا ہے جو قرآنی بیان پریقین کرنے کی بجائے خارج از قرآن نظریات کے سامنے سرجھکا چکا ہو اور پھر اس کوشش میں جُت گیا ہو کہ قرآن چھیل چھال کر اپنے دل و دماغ میں رچے بسے خیالات کے مطابق ڈھال دیا جائے ورنہ قرآنِ مجیدپرپختہ یقین اورمستحکم ایمان رکھنے والا کوئی شخص یہ طرزِ عمل کبھی اختیار نہیں کرسکتا۔
چوتھی مثال: قتل ابناے بنی اسرائیل
یہ ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ فرعونِ مصر نے ولادتِ موسوی سے قبل ابناے بنی اسرائیل کو قتل کرنے کا ظالمانہ سلسلہ شروع کررکھا تھا، خود قرآنِ مجیدبھی اس حقیقت کی تائید کرتا ہے۔ مگر طلوعِ اسلام کے روحِ رواں جناب غلام احمد پرویز کو اس سے انکار ہے۔چنانچہ قرآنِ کریم کے ہر اُس مقام پر جہاں فرعون کے ہاتھوں ابناے بنی اسرائیل کاقتل مذکور ہے، اُنہوں نے یہ تاویل (بشرطیکہ اسے تحریف کی بجائے تاویل کہا بھی جاسکے) فرمائی ہے کہ فرعون اور آلِ فرعون فرزندانِ بنی اسرائیل کو ’’جو ہر انسانیت سے محروم رکھنے کی کوشش‘‘ کہا کرتے تھے نہ کہ اُنہیں جان سے مار دینے کی۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں :
’’یُذَبِّحُ اَبْنَائَ ھُمْ وَیَسْتَحْیِ نِسَآئَ ھُمْ‘‘ (القصص:۴) اس کا عام ترجمہ یہ ہے کہ ’’ وہ ان کے اَبناء کو قتل کرتا اور ان کی نساء کو زندہ رکھتا اور اس طرح اس میں فساد برپاکرتارہتا‘‘ یہ الفاظ دو ایک دیگر مقامات پر بھی آئے ہیں ۔(مثلاً الاعراف:۱۲۷،غافر:۲۵،البقرۃ:۴۹) ہمارے ہاں ان الفاظ کامفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ فرعون نے حکم دے رکھاتھا کہ بنی اسرائیل کے ہاں جتنے