کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 137
عمریں کچھ باعث تعجب نہیں ہوسکتیں ۔‘‘ (معارف القرآن: ج۲/ ص۳۷۶) اس اقتباسِ پرویز میں دو باتیں بالکل واضح ہیں : اوّلاً یہ کہ … وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ ’’حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ قبل از تاریخ ہے۔‘‘ (حالانکہ ’مفہوم القرآن‘ کے حاشیہ صفحہ ۹۱۲ کی رُو سے وہ عمر نوح علیہ السلام کی بابت ’قرآنی ابہام‘ کی وضاحت کے لیے تاریخی تحقیقات کے منتظر رہے ہیں ) اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ جب دورِ نوح علیہ السلام کا تعلق زمانہ قبل از تاریخ سے ہے تو پھر قرآن کے اس صاف اور صریح بیان کے بعد کہ ’’نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو سال اپنی قوم میں رہے۔‘‘ان تاریخی تحقیقات کاانتظار کس شوق میں کیاجارہا ہے جواگر مل بھی گئیں تو ان کا مبنی برظن و تخمین ہونا واضح ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر صحت و استنادکے پہلو سے دیکھا جائے تو یہ’تاریخی تحقیقات‘ (جن کی راہ میں ’مفکر قرآن‘ صاحب عمر بھر اپنی پلکیں بچھائے رہے) ضعیف سے ضعیف حدیث کے مرتبے کو بھی نہیں پہنچتیں لیکن ستیاناس ہو اس غلامانہ ذہنیت کا جو مغرب کی طرف سے آنے والی ہرمبنی برظن و تخمین ’’تاریخی تحقیق‘ کو تو مستند اور قابل اعتماد سمجھتی ہے اور احادیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ظنی کہہ کرردّ کردیتی ہے اور رجعت الی القرآن کے نعرہ کے تحت قرآنی تفسیر کو ان ہی ’تاریخی تحقیقات‘ کی روشنی میں مرتب کرتی ہے، اور یوں مغربی افکارو نظریات کو قرآن پرشرفِ تقدم عطا کرتی ہے۔لیکن اگر کوئی شخص قرآن کی تفسیر صاحب ِقرآن علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طرزِعمل کی روشنی میں کرے تو یہی ذہنیت اسے’عجمی اسلام‘ قرار دیتی ہے اور ’مفکر قرآن‘ اگر اشتراکیت اورمغرب کی فساد زدہ معاشرت اور حیاسوز تمدن کی روشنی میں تفسیر قرآن پیش فرمائیں تو گویا یہ ’خالص عربی اسلام‘ ہے۔ ثانیاً یہ کہ … پرویز صاحب تورات کی بیان کردہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ’’حضرت نوح علیہ السلام ، آدم علیہ السلام سے دسویں پشت میں آتے ہیں ۔‘‘ اس سے یہ واضح ہے کہ آدم ایک مخصوص فرد کا نام ہے، ورنہ اگر آدم علیہ السلام سے مراد ہرفرد و بشر لیاجائے(جیسا کہ پرویز صاحب کاگمانہے) تو نوح علیہ السلام اور ان کے درمیان دس پشتوں کا یہ فاصلہ بے معنی ہوکر رہ جاتاہے۔