کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 136
نہیں رکھتی، بلکہ یہ محض ظن و تخمین اور قیاس ورائے کانتیجہ ہے جس کی تہہ میں لمبی عمر کااستبعادِ عقلی ہی پایا جاتاہے۔ چنانچہ وہ خود بھی خدا کی صریح اور واضح مدت کے مقابلہ میں اپنی قصیر العمری کی تاویل پیش کرنے کی جسارت کرتے بھی ہیں تو اُنہیں قیاسات سے بالاتر کوئی اہمیت نہیں دیتے، جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں :
’’یہ بہرحال قیاسات ہیں ، تاریخی تحقیقات کسی یقینی نقطہ تک پہنچیں گی تو اس کا حتمی مفہوم سامنے آئے گا۔‘‘ (مفہوم القرآن:ص۹۱۲)
کیاستم ظریفی ہے کہ فرمانِ ایزدی ﴿فَلَبِثَ فِیْھْم اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّاخَمْسِیْنَ عَامًا﴾ (العنکبوت:۱۴)سے تو حتمی معنی واضح نہیں ہوتا، اس لیے قیاسات اورظن و تخمین کے گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں اور ساتھ ہی تاریخی تحقیقات کا انتظار ہورہا ہے کہ وہ آکر قرآن کے ان ’غیر واضح مفاہیم‘ میں سے کسی ’حتمی مفہوم‘ کا تعین کریں گی۔
بموخت عقل ز حیرت ایں چہ بو العجبی است
عمر نوح علیہ السلام اوراقتباساتِ پرویز
ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اس مقام پر پرویز صاحب ہی کے ماضی کے دو اقتباسات پیش کردیں تاکہ ان کی ’مفکر قرآن‘ ہونے کی حیثیت کے ساتھ ’شہنشاہِ تضادات‘ ہونے کی حیثیت بھی واضح ہوجائے :
’’دور حاضر کے انسان کے لیے جو سوا سوسال کے عمر کے آدمیوں کو دور دور سے دیکھنے کے لیے آتا ہے، اور نہایت حیرت و استعجاب سے ان سے اس درازئ عمر کے اسباب دریافت کرتا ہے۔ اتنی لمبی عمر بمشکل یاد کئے جانے کے قابل ہے(اس وجہ سے بعض احباب عاماً سے مراد مہینے لینے پر مجبور ہورہے ہیں ) لیکن حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ قبل از تاریخ ہے جس کی تفاصیل کے متعلق ابھی تک بالتحقیق کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔(تورات کی رو سے) حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت آدم علیہ السلام سے دسویں پشت میں آتے ہیں اور ان کے تمام اسلاف کی عمریں آٹھ آٹھ نو نو سو سال کی لکھی ہوئی ہیں ۔ لہٰذا ایک ایسے بعید ترین زمانے میں جب ہنوز انسان کے اعصاب دورِ حاضر کے برق آگیں تمدن اور رعد آمیز فضا کے مہلک اثرات کا شکار نہیں ہوئے تھے اور اُسے ارضی و سماوی آفات کے مقابلے کے لیے قوی ہیکل جسم اور فولادی عضلات عطا کئے گئے تھے، اتنی لمبی