کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 135
﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنُا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَلَبِثَ فِیْھِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا﴾ (العنکبوت: ۱۴)
’’ہم نے نوح علیہ السلام کو اسکی قوم کی طرف بھیجا تو وہ پچاس سال کم ایک ہزارسال انکے درمیان رہا۔‘‘
اب قرآنِ کریم کی اس صراحت کے بعد ’مفکر ِقرآن‘ صاحب مفہوم آیت کو مسخ و تحریف کانشانہ بنانے کی خاطر خواہ مخواہ یہ سوال اُٹھاتے ہیں :
’’اس سے سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا حضرت نوح علیہ السلام کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی۔‘‘ (تفسیر مطالب الفرقان: ۵/۲۳۷)
نہ معلوم کہ یہ سوال کہاں سے اور کیونکر پیداہوگیا؟ جب کہ قرآنِ کریم نے بالفاظِ صریح خود ساڑھے نو سو سال کی عمر بیان کردی ہے۔ حتیٰ کہ خود پرویز صاحب کااپنا ترجمہ آیت بھی اسی حقیقت کو واضح کررہا ہے۔
’’اور ہم نے نوح علیہ السلام کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا اوروہ ان میں پچاس برس کم، ہزارسال رہا۔‘‘ (تفسیر مطالب الفرقان:۵/۲۳۷)
اس کے بعد اپنے موقف کے اثبات کے لیے ایک سے بڑھ کرایک رکیک تاویلات پیش کی ہیں ۔ جن کی تردید کی یہاں گنجائش نہیں ،جو اہل علم اس پوری بحث کو دیکھنا چاہیں وہ میری کتاب ’تفسیر مطالب الفرقان کا علمی اور تحقیقی جائزہ‘ کامطالعہ فرمائیں ۔
انکارِ طول عمر کی لِم
’مفکر قرآن‘ کے نزدیک خداے قدوس کی بیان کردہ کسی حقیقت کی تردید کے لیے بس یہی بات کافی ہے کہ وہ اسے عقلاً مستبعد سمجھتے ہوں ۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں :
’’عربی لغت میں سنة کا اِطلاق فصل پر بھی ہوتا ہے جو سال میں چار ہوتی ہیں یعنی چار فصلوں کاایک سال ہوتاہے۔اس اعتبار سے ألف سنة کے معنی ہوں گے اڑھائی سو سال اور عامًا پورے سال کو کہتے ہیں ۔ اس لیے اگر خمسین عامًا (پچاس سال) کو اس میں سے منہا کردیا جائے توباقی دو سو سال رہ جاتے ہیں اور اتنی عمر کچھ ایسی مستبعد نہیں ۔‘‘
لمبی عمر کو عقلاً مستبعد جاننا، یہ ہے وہ لِم جو اللہ کی بیان کردہ صریح اور واضح مدت کی تاویل بلکہ تحریف کی تہہ میں کار فرما ہے۔’مفکر قرآن‘ کی یہ ’تحقیق‘ اپنی پُشت پرکوئی علمی قوت