کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 134
تحقیق و تنقید حافظ پروفیسر ڈاکٹر محمددین قاسمی قسط:۲ / آخری غلام احمد پرویز کے ایمان بالقرآن کی حقیقت ’مفکر قرآن‘ جس قدر قرآن، قرآن کی رٹ لگایا کرتے، اسی قدر وہ قرآنِ کریم سے گریزاں اور کتاب اللہ سے کنارہ کش تھے۔ پھر اس پر مستزاد یہ کہ وہ اپنے مقابلے میں جملہ اہل علم کو قرآن سے بے خبر اور جاہل قرار دیا کرتے تھے جس کی تفصیل پہلی قسط میں گزر چکی ہے۔ مفکر قرآن کے ایمان بالقرآن کی حقیقت ذلک قولہم بأفواہہم سے زیادہ نہیں ہے۔ اگر چہ وہ اپنے ایمان بالقرآن کا ڈھنڈورا خوب پیٹا کرتے لیکن عملاً ان کے ہاں سند و معیار علماے مغرب کی تحقیقات تھیں ۔ اس امر کے اثبات میں متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ، لیکن مقالے کی تنگ دامنی کے سبب محض چند مثالوں پر اکتفا کیا جاتاہے، جن میں سے دو کا تذکرہ گذشتہ قسط میں ہوچکا ہے، مزید مثالیں یہاں ملاحظہ فرمائیں : تیسری مثال :عمر نوح علیہ السلام قرآنِ کریم بہ نص صریح یہ بیان کرتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو سال اپنی قوم میں رہے۔ ہردورکے علماء و مفکرین، فقہاء و مجتہدین، اہل سیر و مؤرّخین، نوح علیہ السلام کی عمر نو سو پچاس (۹۵۰) سال لکھتے اور مانتے چلے آرہے ہیں ، حتیٰ کہ اسی مسئلہ میں اُن معتزلہ تک نے بھی انکار نہ کیاتھا جنہیں عقلی تیرتُکے لڑا کر دور کی کوڑی لاتے ہوئے نرالی اُپچ اختیارکرنے کا شوقِ فضولیات بہ مقدارِ وافر ملاتھامگر دورِ جدیدمیں معدودے چند لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ وہ اس قدر طویل العمر نہیں تھے، بس زیادہ سے زیادہ دو اڑھائی سو سال تک ان کی عمر تھی۔ یہ بات اُنہوں نے کسی علمی تحقیق و تفتیش کی بنا پر نہیں کہی ،بلکہ صرف اس لیے کہی کہ محسوسات کے خوگر انسان کو اس قدر لمبی عمر عقلاً مستبعد دکھائی دیتی ہے۔ چنانچہ عقل کے یہ غلام قرآنی نصوص میں قیاسی تیر تُکوں سے کام لے کر اس طویل العمری کو اس قدر قصیر العمری میں بدلنے پر جت گئے جس سے ان کی عقلی استبعاد کاازالہ ہوجائے۔ اس سلسلہ میں آنجہانی غلام احمد پرویز کی عمر بھر کی قرآنی تحقیق و تدقیق کا ثمرہ ملاحظہ فرمائیے۔ لیکن پہلے وہ آیت ایک نظر دیکھ لیجئے جس میں عمر نوح علیہ السلام ، ۹۵۰ سال مذکور ہے :