کتاب: محدث شمارہ 332 - صفحہ 131
گے بلکہ اُنہیں وہاں سلام ہی سلام سننے کو ملے گا۔(الواقعہ:۲۶ نیز سورۂ مریم:۶۲) احادیث کے انکار کے ساتھ ساتھ منکرین کی مت بھی ماری جاچکی ہے اور یہ قرآنِ مجید پر تدبر اور غوروفکر سے بھی محروم ہوچکے ہیں ۔ ان منکرین کو اگر کوئی گالیوں سے نوازے اور بُرا بھلا کہے تو کیا یہ اُنہیں سلام کا تحفہ پیش کریں گے یا مرنے مارنے پر تیار ہوجائیں گے؟ اگر یہ منکرین ان آیات کے سیاق و سباق کو بھی غوروفکر سے پڑھتے تو کبھی بھی اتنی بڑی جہالت کا مظاہرہ نہ کرتے۔
4. یہی مضمون ایک دوسرے مقام پر اس طرح بیان ہوا ہے:
﴿فَاصْفَحْ عَنْھُمْ وَقُلْ سَلَامٌ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ﴾ (الزخرف:۸۹)
’’پس آپ ان سے منہ پھیر لیں اور کہہ دیں : اچھا بھائی سلام! اُنہیں عنقریب (خود ہی)معلوم ہوجائے گا۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کافروں سے منہ پھیرنے کاحکم دیاجارہا ہے اور کافروں کو یہ دھمکی بھی دی گئی ہے کہ انہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا اور اصل حقیقت بھی ان پر عنقریب کھل جائے گی۔
ظاہر ہے کہ کافروں کی ریشہ دوانیوں اور اسلام سے ان کی بیزاری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گستاخی اور ان کی لغویات پر ان سے الگ ہونے اور سلام مفارقت کہنے کا کہا گیا ہے نہ کہ ان آیات میں انہیں سلام کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔ نیز ملت ابراہیمی سے مراد اللہ تعالیٰ کی توحید کواختیار کرنا اور شرک سے بیزاری کا اعلان کرنا ہے نہ کہ ان مشرکوں کو سلام کا تحفہ پیش کرنا ہے۔ فافہم وتدبَّر
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل ایمان کو سلام کرنے کا حکم دیا ہے۔(الانعام:۵۴) اسی طرح جو تمہیں سلام پیش کرے تو اسے بلا تحقیق غیر مؤمن قرار نہ دیا جائے بلکہ مؤمن سمجھ کر اس کے سلام کو قبول کرلیاجائے۔(النساء :۹۴) اورکافروں اور مشرکوں کو سلام کہنے کا قرآن مجید میں کہیں بھی حکم نہیں دیا گیا ہے۔
10. جنت میں سلام کا مقام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کا نام ہی ’دارالسلام‘ رکھا ہے:
﴿لَھُمْ دَارُ السَّلَامِ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَھُوَ وَلِیُّھُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾(الانعام:۱۲۷)
’’ایسے لوگوں کے لیے ان کے پروردگار کے ہاں سلامتی کاگھر (جنت) ہے اور ان کے نیک